عمران خان اقوام متحدہ سے مقبوضہ کشمیر میں مداخلت کا مطالبہ کریں گے؟

شکریہ وزیراعظم: ملائیشیا کی جیلوں سے رہا ہو کر وطن پہنچنے والوں کا اظہار تشکر

نیویارک: ’’جس طرح 1992 میں ہونے والے ورلڈ کرکٹ کپ کے فائنل سے ایک دن قبل میرے محسوسات و احساسات تھے بالکل آج ایک مرتبہ پھر ویسا ہی محسوس کررہا ہوں، مجھے نہایت بے صبری سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کا انتظار ہے‘‘۔ ان خیالات کا اظہار وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز ایشیا سوسائٹی سے اپنے خطاب کے دوران کیا۔

وزیراعطم عمران خان آج جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے پاکستانی وقت کے مطابق شب ساڑھے آٹھ بجے خطاب کریں گے تو ان پہ کروڑوں نگاہیں مرکوز ہوں گی کہ وہ عالمی دنیا کے سامنے کشمیر کا مقدمہ کیسے اور کس انداز سے پیش کرتے ہیں؟ وہ امریکہ روانگی سے قبل اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ کشمیر کے سفیر کے طور پر مقدمہ پیش کریں گے۔

وقت آنے پر کشمیریوں کو مایوس نہیں کریں گے، باجوہ

عمران خان جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74 ویں سالانہ اجلاس سے خطاب کریں گے تو اس سے قبل بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اپنا خطاب کرچکے ہوں گے جس کے متعلق بھارتی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ وہ کشمیر کا ذکر تک نہیں کریں گے اور اپنے گلوبل وژن پر بات کریں گے۔

پاکستانی وزیراعظم کے متعلق پوری دنیا کو معلوم ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر اٹھائیں گے اور بھارت کی جانب سے مقبوضہ وادی چنار میں ڈھائے جانے والے ریاستی مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے دنیا کو آگاہ کریں گے۔ وہ اس حوالے سے پاکستانی مؤقف سے آگاہی بھی دلائیں گے۔

امریکہ کے مؤقر اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم عمران خان اپنے خطاب میں اقوام متحدہ سے مطالبہ کریں گے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مؤثر اقدامات کرے اور مظلوم کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دلوانے میں اپنا کردار ادا کرے۔

اخبار کے مطابق وہ جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب کے دوران اقوام متحدہ سے درخواست کریں گے کہ وہ کشمیر میں مداخلت کرے۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے خصوصی ملاقات بھی کریں گے جس میں انہیں وہاں کے حالات بتائیں گے۔

عالمی سطح کے اہل قلم کشمیر میں انسانی حقو ق کی پامالی کے خلاف آواز بلند کریں، افتخار عارف

ایشیا سوسائٹی سے اپنے خطاب میں عمران خان نے واضح کیا کہ وہ جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر اس طرح اٹھائیں گے جس طرح اس سے قبل پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ یہ کشمیریوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنے متعلق کیا فیصلہ کرتے ہیں؟ البتہ امریکہ اقوام متحدہ پر اس سلسلے میں دباؤ بڑھا سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عام بحث کا آغاز 24 ستمبر کو ہوا تھا جو 30 ستمبر تک جاری رہے گا۔

مقبوضہ وادی کشمیر گزشتہ 53 دن سے مسلسل کرفیو نافذ ہے اور لاک ڈاؤن کی صورتحال قدم قدم پر انسانی المیے کو جنم دے رہی ہے۔ ریاستی مظالم اور جبر و تشدد نے پوری وادی کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کردیا ہے۔

بلاشبہ! سابقہ سالوں کی نسبت اس مرتبہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس اس لحاظ سے غیر معمولی قرار دیا جا رہا ہے کہ جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والی دو جوہری طاقتوں کے حامل ممالک کے درمیان کشمیر کے حوالے سے کشیدگی عروج پر ہے۔ پاکستان اور بھارت میں مقیم کروڑوں افراد کی نگاہیں اقوام متحدہ پر مرکوز ہیں اور لوگ منتظر ہیں کہ تقاریرمیں کیا کہا جاتا ہے؟

کشمیر:51 دن میں 13ہزار بچے لاپتہ، خواتین نے بھی مودی حکومت کو جھوٹی کہہ دیا

عوام الناس میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ عین ممکنات میں سے ہے کہ مقبوضہ کشمیر سے کرفیو اٹھانے کی بات کردی جائے لیکن ساتھ ہی لوگوں میں خدشات موجود ہیں کہ اگر اجلاس ماضی کی طرح نشستاً گفتاً اور برخاستاً تک ہی محدود رہتا ہے تو اس کے معنی ہوں گے کہ اجلاس کے اختتام پر صورتحال زیادہ گھمبیر ہوجائے گی۔

پاکستان اور بھارت کے مابین گزشتہ کچھ مہینوں سے اس ضمن میں کشیدگی عروج پر ہے اور سرحدوں پر بھارتی افواج کی جانب سے کی جانے والی مسلسل خلاف ورزیاں حالات کو مزید کشیدہ بنار ہی ہیں۔


متعلقہ خبریں