طالبان حملے کا خطرہ برقرار: لاکھوں افغان کل صدارتی انتخابات میں حصہ لیں گے


طالبان کی جانب سے دھمکیوں اور حملے کے  خدشے کے باوجود لاکھوں افغان کل ہونے والے صدارتی انتخابات میں  ووٹ ڈالنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

افغان عوام نے امید  ظاہر کی ہے کہ  ہفتے کے روز ہونے والے انتخابات 2014  کے الیکشن کی طرح دھاندلی زدہ اور متنازعہ نہیں ہوں گے۔

تقریباً ایک درجن امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں لیکن اصل مقابلہ موجودہ صدر اشرف غنی اور چیف ایگزگٹیو عبداللہ عبداللہ کے درمیان ہوگا۔

34 ملین کی آبادی والے ملک میں 9.67 ملین افغانیوں نے 2019 کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے اپنا اندارج کرایا ہوا ہے۔

واضع رہے کہ یہ انتخابات ایسے  موقع پر ہورہے ہیں جب امریکہ نے طالبان  سے ہونے والے معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری کا اعلان کیا ہے، جس کے بعد طالبان عسکریت پسندوں نے افغانستان کے مختلف علاقوں میں حملے تیز کر دیے ہیں۔

طالبان نے افغان عوام کو انتخابات میں حصہ نہ لینے کا کہا ہے۔ جبکہ افغان حکام اور افواج نے عوام سے بڑھ چڑھ کے انتخابات میں حصہ لینے کا کہا ہے۔

کابل میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اشرف غنی نے کہا کہ الیکشن کے دن افغانستان کے عوام اپنے آزادانہ اور منصفانہ ووٹوں کا دفاع اور جمہوریت کی حفاظت کریں گے۔

2011 میں امریکی حملے کے نتیجے میں اقتدار سے ہاتھ دھونے کے بعد طالبان اس وقت افغانستان  کے زیادہ تر علاقے پر قابض ہیں۔ طالبان آئے روز حکومتی افواج  اور عام شہریوں کا حملے کا نشانہ بناتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: صدارتی انتخابی مہم اختتام پذیر: ہفتہ کے دن پولنگ ہوگی

طالبان کی جانب سے انتخابی جلسوں  پرحملے کے نتیجے میں اب تک 170 اافغان شہری ہلاک اور 300 سے زائد ہلاک ہوگئے ہیں۔

افغان وزارت دفاع کے مطابق انتخابات کے دن  تقریباً 100,000 سیکیورٹی اہلکار مختلف پولنگ اسٹیشنز اور حساس علاقوں میں تعینات کیے جائیں گے تاکہ الیکشن کا انعقاد پرامن طریقے سے کرایا جاسکے۔

دوسری جانب عبداللہ عبداللہ نے اپنے ایک بیان میں انتخابات میں دھاندلی ہونے کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ایسا ہونے کی صورت میں ملک کی جمہوریت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر انتخابات میں دھاندلی کی گئی اور کسی کو غلط طریقے سے جتوایا گیا تو یہ ہمیں قبول نہیں ہوگا۔

رائٹرز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اشرف غنی امن کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ ہیں اور صدر بننے کے اہل ہی نہیں ہیں۔

34 ڈسٹرکٹ میں انتخٓابات کرانے کے لیےافغان حکومت نے 90 ملین ڈالر جبکہ بین الااقوامی ڈونرز نے 59 ملین ڈالر مختص کیے ہیں۔

کابل میں موجود مختلف ممالک کے سفیروں کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے حملے کے خوف کی وجہ سے لوگوں میں انتخابات کے حوالے سے روایتی جووش و خروش نہیں پایا جاتا۔

ان کا کہنا ہے ووٹ ڈالنے کے لیے فوٹو ہونے کی  شرط  کی وجہ سے قدامت پسند علاقوں میں بہت ساری باپردہ خواتین ووٹ نہیں ڈال پائیں گی۔

 


متعلقہ خبریں