لوگوں کی خوش فہمیاں اب مایوسی میں بدل رہی ہیں، سلیم صافی


اسلام آباد: سینئر صحافی سلیم صافی نے کہا ہے کہ حکومت سے متعلق لوگوں کی خوش فہمیاں اب مایوسی میں بدل رہی ہیں۔ عمران خان کی تقریر کے بعد بھی کشمیر میں کچھ نہیں بدلا۔

ہم نیوز کے پروگرام بریکنگ پوائنٹ ود مالک میں میزبان محمد مالک سے بات کرتے ہوئے سینئر صحافی ضرار کھوڑو نے کہا کہ حزب اختلاف عمران خان کے کامیاب دورے کو پنچر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وزیر اعظم نے ایک اچھا قدم اٹھایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر کے مسئلہ پر شہباز شریف کی حمایت پڑوسی ملک پر یہ واضح کرتی ہے کہ سیاسی اختلاف اپنی جگہ کشمیر کے معاملے پر سب ایک ہیں۔ مجھے مولانا فضل الرحمان پر ترس آتا ہے کیونکہ ان کے پاس اب کوئی سرکاری عہدہ نہیں ہے۔

سینئر صحافی نے کہا کہ ملکی معاشی حالات کو خراب کرنے کی ذمہ دار صرف تحریک انصاف ہی نہیں گزشتہ حکومتیں بھی ہیں۔ اسحاق ڈار نے مصنوعی طریقے سے ڈالر کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی ہوئی تھی اور اب اگر حکومت تبدیل بھی ہوتی ہے تو وہ بھی معیشت پر فوراً قابو نہیں پا سکے گی۔

انہوں نے کہا کہ اگر آپ اپنے ملک میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کر سکتے تو پھر بیرون ملک جتنی بھی اچھی تقریریں کرتے رہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا کہ تقریر لمبی تھی لیکن بہت اچھی تھی۔ عمران خان نے اپنے دورے سے پوری طرح سے فائدہ اٹھایا۔ ہم نے یہ تاثر دیا تھا کہ امریکہ یا دوسرے ممالک ثالثی کا کردار ادا کریں لیکن ایسا نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ عمران خان کی دوسری ملاقات اس لیے نہیں ہوئی کہ ٹرمپ نے ہمارے لوگوں سے کہا کہ میں نے مودی سے بات کی ہے لیکن وہ غصے میں ہیں اور وہ کچھ بھی ماننے کو تیار نہیں ہے۔ ٹرمپ نے اپنی تقریر کے دوران پاکستان اور کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کی بات بھی نہیں کی اور وہ طالبان کے معاملے پر بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔

سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ ہمیں امریکہ اور دوسرے ممالک سے اچھا رسپانس نہیں ملا شاید اس وجہ سے بھی عمران خان نے جارحانہ تقریر کی اور بھارت کو ٹھیک ٹھاک سنا دی۔

سلیم صافی نے کہا کہ کشمیر میں جو صورتحال تھی وہی آج بھی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے تقریر میں کشمیر کے معاملے پر کوئی بات نہیں کی۔ ثالثی کی بات امریکی صدر نے پہلے بھی کی تھی لیکن وہ کہتے ہیں مودی نہیں مان رہا تو اس کا کیا فائدہ۔ مودی کے پاس تو کہنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔

انہوں نے  کہا کہ اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن مولانا فضل الرحمان کے ساتھ نہیں آئیں گی تو اپنے ساتھ ظلم کریں گی اور مولانا فضل الرحمان کے لیے کام آسان ہو جائے گا۔ اس وقت مولانا فضل الرحمان کا وزن حزب اختلاف میں سب سے زیادہ ہے۔

سلیم صافی نے کہا کہ میڈیا نے کبھی کوشش نہیں کی کہ وہ سیلیکٹڈ بنے میڈیا پر تو پابندیاں لگائی جا رہی ہیں تاہم بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری نے کئی بار سیلیکٹڈ بننے کی کوشش کی۔

انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان حکومت کے لیے کسی قسم کا خطرہ نہیں ہیں اور نہ ہی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن۔ حکومت کے لیے خود اس کی اپنی پالیسی ہی خطرے کی علامات ہیں۔ جن چیزوں پر عمران خان آئے تھے اس کے الٹ ہی ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے معاملات تو کسی حد تک طے ہو گئے ہیں لیکن مسلم لیگ ن کے معاملات نواز شریف اور مریم نواز کی وجہ سے طے نہیں ہو رہے۔

سلیم صافی نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے حوالے سے لوگوں کی خوش فہمی مایوسی میں بدل رہی ہے۔ موجودہ صورتحال کو ایک دم درست نہیں کیا جا سکتا لیکن حکومت کے پاس کوئی واضح پالیسی بھی نہیں ہے اور حکومت کی موجودہ ٹیم سے ہمیں بہتری کی بھی کوئی بھی امید نہیں ہے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے کہا کہ وزیر اعظم کی کشمیر کے حوالے سے اچھی تقریر تھی اور انہوں نے پاکستانی عوام کے جذبات کی ترجمانی کی۔بلاول بھٹو کو یہ نہیں کہنا چاہیے تھا کہ سیلیکٹڈ میڈیا نے تالیاں بجائیں۔ میڈیا کا جو کام تھا اس نے وہی کیا۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے غیر ملکی میڈیا کو دیے گئے انٹرویو بھی بہت اچھے رہے۔ القاعدہ اور فوج کے حوالے سے عمران خان کی طرف سے کی گئی بات پر کوئی شور نہیں مچا۔ لیکن اگر یہ کوئی اور سیاسی سربراہ کہتا تو غدار قرار دیا جا چکا ہوتا۔

عاصمہ شیرازی نے کہا کہ موجوہ ملکی صورتحال کی وجہ سے مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ کامیاب ہو سکتا ہے کیونکہ مہنگائی کی وجہ سے عام آدمی بھی فضل الرحمان کے ساتھ کھڑا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ گورننس کے معاملات بہت خراب ہیں اور حکومت کو بار بار وزرا تبدیل کرنے پڑ رہے ہیں۔ کابینہ ملکی معاملات کو چلانے میں ناکام ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے حکومت کو چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان کی ہر سطح کا فرد حکومت سے ناامید ہو رہا ہے۔


متعلقہ خبریں