عابد باکسر ہماری تحویل میں نہیں ہے، ایف آئی اے اور پولیس کا جواب


لاہور: لاہور ہائی کورٹ کو ایف آئی اے اور پولیس نے واضح طور پر بتادیا ہے کہ عابد باکسر ان کی تحویل میں نہیں ہے۔

بدھ کو دونوں اداروں کی جانب سے تحریری طور پر یہ بات لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس محمد انوارالحق کی عدالت کو بتائی گئی۔

انسپکٹر عابد باکسر کی جان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے اس کے سسر جعفر رفیع نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کررکھی ہے۔

ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس محمد انوارالحق نے دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے فریقین کے وکلا کو بحث کے لئے آٹھ مارچ کو طلب کر لیا۔

دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ عابد باکسر کو دبئی سے گرفتار کرکے پاکستان لایا جا چکا ہے۔ ملزم کے خلاف 12مقدمات تھانوں میں درج ہیں اور اس کی جان کو خطرہ ہے۔

 درخواست گزار نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اسے مبینہ پولیس مقابلے میں مار دیا جائے گا۔ عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ عابد باکسر کو پولیس مقابلے میں ہلاک نہ کرنے اور اس کی زندگی کے تحفظ کو یقینی بنانے کے احکامات دیئے جائیں۔

جعلی پولیس مقابلوں سے شہرت حاصل کرنے والے انسپکٹر عابد باکسر کا نام شہہ سرخیوں میں اداکارہ نرگس پر بھیانک تشدد کرنے کے حوالے سے بھی سامنے آیا تھا۔

مارچ 2002 میں فلم و اسٹیج کی اداکارہ نے میڈیا کو بتایا تھا کہ عابد باکسر نے کئی گھنٹے اسے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا ۔ نرگس نے تشدد زدہ بازو دکھاتے ہوئے بتایا تھا کہ اس کے جسم پر عابد باکسر نے 39 کالے اور نیلے نشانات بنا دیئے ہیں۔

عابد باکسر پر یہ الزام بھی لگایا گیا تھا کہ چاقو سے نرگس کے سر کے بال کاٹنے کے علاوہ اس کی بھنویں بھی شیو کردی تھیں۔ بہیمانہ تشدد کا نشانہ بننے کے بعد نرگس کافی عرصے تک اسکارف اوڑھتی رہیں اور درجنوں طے شدہ پروگراموں سے انھیں معذرت بھی کرنا پڑی۔

عابد باکسر کے اس ایک اقدام سے فلم اور اسٹیج کی دنیا میں اس کی دھاک بییٹھ گئی تھی اور شوبز سے وابستہ اکثر ستاروں نے اچھے تعلقات رکھنے میں ہی عافیت جانی تھی۔

عابد باکسر پر بے پناہ مبینہ جعلی مقابلے کرنے اور سیاسی مخالفین کو بھی اسی آڑ میں ٹھکانے لگانے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔


متعلقہ خبریں