گوگل نے اپنا ڈوڈل مخمور آنکھوں والے چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کے نام کردیا

گوگل نے اپنا ڈوڈل مخمور آنکھوں والے چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کے نام کردیا

اسلام آباد: ’اولاد‘ سے اپنے فنی سفر کا آغاز کرنے والے وحید مراد نے جب سمندر اور اشارہ نامی فلموں میں آواز کا جادو جگایا تو اس زمانے کے موسیقاروں تک کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا لیکن ’بوجوہ‘ وہ سر اور لے کا سفر مزید جاری نہ رکھ سکے۔ اس طرح پاکستان کی سنہری فلمی تاریخ میں صرف چاکلیٹی ہیرو کے طور پر ہی مشہور ہوئے حالانکہ بطور فلمساز، پروڈیوسر اور اسکرپٹ رائٹر بھی ان کی خدمات سے انکار ممکن نہیں ہے۔

کم لوگ ہی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ اپنے دور کے ممتاز ترین رومانٹک ہیرو کا اعزاز رکھنے والے وحید مراد نے ارمان، احسان، اشارہ اور ہیرو جیسی فلموں کی کہانیاں بھی تخلیق کی تھیں۔

آج جب ان کی 81 ویں سالگرہ منائی جارہی ہے تو دنیا کے سب سے بڑے سرچ انجن ’گوگ‘ل نے اپنا ڈوڈل ان کے نام کرکے انہیں نہ صرف خراج عقیدت پیش کیا ہے بلکہ ان کی عظیم فلمی خدمات کا برملا اعتراف بھی کیا ہے۔

سانولی رنگت پہ مخمور نگاہیں اور خوش لباسی نے اعلیٰ تعلیم یافتہ وحید مراد کو اپنے دور کا سب سے مقبول فلمی ہیرو بنا دیا تھا۔اس پہ قیامت ان کا ہیئر اسٹائل تھا جس کو دیوانہ وار نقل کیا جاتا تھا۔ یہ ان کی مقبولیت کا ہی ثبوت ہے کہ 60،70 اور 80 کی دہائیوں میں نہ صرف نوجوان ان کے جیسا ہئراسٹائل بناتے تھے بلکہ ان کے مخالف ہیروز کے لیے بھی لازمی تھا کہ وہ ان ہی کے جیسے بال بنائیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ برصغیر کی فلمی تاریخ میں ہیئر اسٹائل کے حوالے سے  جو مقبولیت وحید مراد کو ملی وہ بھارت کے صرف ایک اداکار کے حصے میں آئی وگرنہ اس ضمن میں کوئی ان کے قریب بھی پھٹک نہ سکا۔ انہوں نے فلم تقسیم کار نثار مراد کے گھر سیالکوٹ میں دو اکتوبر 1938 کو جنم لیا اور پھر اپنے والد کے ہمراہ کراچی منتقل ہوگئے جہاں ان کے والد کا کاروبار تھا۔

انگریزی ادب میں ایم اے کرنے والے وحید مراد کی پہلی فلم  اولاد جب 1962 میں سنیما گھروں کی زینت بنی تو وہ ملک کی پلی گولڈن جوبلی فلم ٹھہری۔ جب ارمان پردہ اسکرین کی زینت بنی تو وہ پہلی پلاٹینیم جوبلی کہلائی۔ وحید مراد نے اپنی زندگی میں 124 فلموں میں کام کیا جن میں آٹھ پنجابی اور ایک پشتو فلم بھی شامل ہے۔

یہ کہنا بھی غلط نہیں ہے کہ گانے کی پکچرائزیشن میں انہیں جو ملکہ حاصل تھا وہ بہت کم لوگوں کے حصے میں آیا اور بطور خاص جب ان پراحمد رشدی کے گائے ہوئے گانے پکچرائز کیے جاتے تھے تو سننے والوں اور دیکھنے والوں پر ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔

ارمان کے معروف گانے ’کو کو رینا‘ اور ’اکیلے نہ جانا‘ آج بھی ٹھہرے قدموں کو بے ساختہ حرکت پہ مجبور کردیتے ہیں۔ یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ ارمان نے باکس آفس کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے تھے۔

ستارہ امتیاز اور لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ حاصل کرنے والے وحید مراد نے 1980 کے بعد ایسا وقت بھی دیکھا کہ جب پروڈیوسرز نے انہیں سائن کرنا بند کردیا اوران سے کترانے لگے وگرنہ وہی پروڈیوسرز ایک ملاقات کے لیے منت سماجت بھی کرتے تھے۔

پروڈیوسرز کے بدلتے رویے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ایک کار ایکسیڈنٹ میں ان کے چہرے پہ چند ٹانکے آئے تھے اور ایک آنکھ بھی متاثر ہوئی تھی جس کی وجہ سے وہ مقبولیت کے ’سنگھاسن‘ پہ برقرار نہ رہ سکے تھے۔

شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں کو چھونے والے وحید مراد کے لیے لوگوں اور فلم بینوں کا بدلتا رویہ سوہان روح تھا۔ ان کے ساتھ یہ بھی مسئلہ درپیش تھا کہ وہ ذہنی اعتبار سے یہ تسلیم نہیں کرپارہے تھے کہ ان کا دور گزر گیا ہے۔ انہوں نے دنیا پہ اپنی مقبولیت ایک مرتبہ پھر ثابت کرنے کے لیے ہیرو نامی فلم بنانے کا اعلان کیا جو بوجوہ انتقال کے بعد پردہ اسکرین کی زینت بنی لیکن عوام کی وہ توجہ حاصل نہ کرسکی جو ان کا خاصا گردانی جاتی تھی۔

وحید مراد نے اپنے دور کی تقریباً تمام معروف فلمی ہیروئنز رانی، شبنم، بابرہ شریف، آسیہ، شمیم آرا، دیبا اور نشوسمیت دیگر کے ساتھ کام کیا لیکن جو مقبولیت انہیں زیبا کے ساتھ ملی وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

25 سال تک فلمی دنیا میں اپنی مقبولیت اور شہرت برقرار رکھنے والے وحید مراد 23 نومبر 1983 کو اس وقت خالق حقیقی سے جا ملے جب ان کی عمر محض 45 سال تھی۔

فلمی دنیا میں انہوں نے بطور ہیرو، پروڈیوسر، اسکرپٹ رائٹر، فلمسارز اورگلوکار خدمات انجام دیں جسے نظر انداز کرنا ناممکنات میں سے ہے۔

وحید مراد کی طرح بیک وقت فلم کے مختلف شعبوں میں خدمات انجاد دینے کا ایسا ہی اعزاز سعید خان کے پاس بھی ہے جنہیں دنیا رنگیلا کے سامنے سے جانتی ہے۔


متعلقہ خبریں