’ ہائیکورٹ کب سے ماسٹر بن گئی جو بتائے کہ یونیورسٹی نے کونسے مضامین پڑھانے ہیں ؟‘

عوامی اور سرکاری زمینوں پر پیٹرول پمپس کیسے تعمیر ہو گئے ؟ چیف جسٹس

اسلام آباد: عدالت عظمی کے سینیئر جج جسٹس گلزار احمد نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہائیکورٹ کب سے ماسٹر بن گئی جو بتائے کہ یونیورسٹی نے کونسے مضامین پڑھانے ہیں ؟ 

انہوں  نے یہ ریمارکس آج سپریم کورٹ میں مالاکنڈ یونیورسٹی کو ہائیکورٹ کی جانب  سے فزکس پڑھانے کے حکم خلاف اپیل کی سماعت کے دوران دیے۔

کیس کی سماعت جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کی ۔ سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل سماعت کیلئے منظور کر لی اورہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کردیا  گیا۔

جسٹس گلزار احمد  نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ آئینی آ رٹیکل 199 کے تحت ہائیکورٹ کا یہ کام تو نہیں ہےکہ وہ طے کرے کہ کس یونیورسٹی نے کون سا مضمون پڑھانا ہے اور کون سا نہیں۔

اس مقدمے کے درخواست گزار طالب علم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہائیکورٹ کے حکم کے تحت امتحان پاس کیا ملازمت میں ترقی بھی ملی ۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ یہ بہت بڑا مسئلہ  ہے ،ہائیکورٹ نے یونیورسٹی ہلا کر رکھ دی ہے ،کل ہائیکورٹ یونیورسٹی کو دوسرے مضامین پڑھانے کا بھی حکم دے گی۔ اس قسم کے فیصلے مشکلات پیدا کرتے ہیں،ایسے فیصلوں سے ملک ہل جاتا ہے۔

مالاکنڈ یونیورسٹی کے وکیل بیرسٹر مسرور شاہ نے کہا کہ عدالتی حکم پر فزکس ڈیپارٹمنٹ بنایا گیا،مختلف طالب علموں نے یونیورسٹی سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ طلبہ نے ایک عرصہ کے بعد دیگر مضامین پڑھانے کیلئے ہائیکورٹ میں درخواست دی تو عدالت عالیہ نےفزکس اور کیمسٹری پڑھانے کا حکم دے دیا۔

یونیورسٹی کے وکیل نے یہ دلیل بھی دی کہ ایسی صورت میں کل پھر زراعت یونیورسٹی کو میڈیکل پڑھانے کا بھی حکم دیا جا سکتا ہے۔

عدالت نے ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردی۔

سپریم کورٹ نے فریقین کو ایک ماہ میں اضافی دستاویزات جمع کروانے کا حکم بھی دیا۔

یہ بھی پڑھیے: سپریم کورٹ: نجی اسکولوں کی فیس میں 2017 کے بعد کیا جانے والا اضافہ کالعدم


متعلقہ خبریں