شہباز، بلاول جیل سے بچنے کیلئے آزادی مارچ کی حمایت نہیں کررہے، سلیم صافی


اسلام آباد: معروف صحافی سلیم صافی کا کہنا ہے کہ خواجہ آصف، شہباز اور بلاول بھٹو کا پہلا ایجنڈا جیل میں قید اپنے لوگوں کو باہر نکالنا اور خود جیل جانے سے بچنا ہے اور اسی لیے وہ جمیعت علمائے اسلام (ف) کے آزادی مارچ میں شرکت نہیں کررہے۔

ہم نیوز کے مارننگ شو ’صبح سے آگے‘ میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ پہلے سے ہی کمزور حکومت کو مزید کمزور کر دے گا، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت خود کو بچانے میں مصروف ہے اسی لیے مولانا کو مارچ کی تاریخ آگے کرنے کا کہہ رہی تھی۔

انہوں نے کہا کہ جو اصل اپوزیشن تھی اسے جیل میں ڈال دیا گیا ہے، جو باہر رہ گئے ہیں ان کی توجہ خود کو بچانے پر مرکوز ہے۔

سلیم صافی نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کا وطیرہ ہے کہ ہر ’اس طرح‘ کے کام کے لیے پختونوں کو آگے کر دیتی ہے، اسلام آباد میں دھرنے کے دوران بھی عمران خان خود ڈنڈ نکالتے رہے اور پختونوں کو مار کھانے کے لیے آگے کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ پختونوں کا شمار دنیا کی مہذب ترین اقوام میں کیا جاتا ہے، ان کی روایات میں گالم گلوچ کبھی بھی نہیں رہا مگر موجودہ حکومت نے پختون وزرا کو اس کام پر بھی لگا دیا ہے۔

’یہ حکومت اپنے ساتھ کیا کر رہی ہے؟‘

اس سوال پر کہ موجودہ حکومت آزادی مارچ کے ساتھ کیا معاملہ اختیار کرے گی انہوں نے جواباً سوال کیا کہ یہ حکومت اپنے ساتھ کیا کر رہی ہے؟

حکومت کی کوئی سمت متعین نہیں ہے، ہر وزیر ہر معاملے پر الگ قسم کا بیان دے رہا ہوتا ہے۔ سلیم صافی نے کہا کہ زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ جو کام حکومت کرتی ہے اس پر اس کا کتنا اختیار ہوتا ہے؟

انہوں نے کہا کہ حکومت کے امیرالمومنین نے دعوت دی تھی کہ آ جائیں میں کنٹینر دیتا ہوں جی بھر کے احتجاج کریں، اب انہی کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے کہہ دیا ہے کہ ہم آزادی مارچ کے شرکا کو صوبے سے گزرنے نہیں دیں گے، اب کیا کہیں کہ حکومت کون سی پالیسی اپنائے گی؟

سلیم صافی کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت بدترین ہے، ہر شعبے میں ملک کا بیڑا غرق ہونے کی وجہ یہی ہے کہ کرکٹ کے ماہر کو ملک سنبھالنے کے لیے بٹھا دیا ہے۔ کرکٹر، گلوکار وغیرہ معصوم لوگ ہوتے ہیں، انہوں نے چالیں نہیں سیکھی ہوتیں اور سیاست چالوں کا کھیل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی قوم کو کرکٹ ٹیم سمجھ لیا گیا ہے، پہلے ایک کھلاڑی کو سیاست دان اور پھر حکمران بنا دیا گیا اور اب ملک کا یہ حال ہو گیا ہے، اسی لیے کہتے ہیں کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔

ملک کے سیاسی حالات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ پہلے بےنظیر کو نکالنے کے لیے نواز شریف کا انتخاب کیا گیا، بالکل انہی نعروں کا کہ میڈ ان پاکستان ہے، محب وطن ہے، معیشت کو بہتر کر دے گا۔ حالانکہ میاں نواز شریف کا نہ کوئی ویژن تھا نا ہی سیاسی تجربہ تھا۔

’جو نواز شریف کے ساتھ ہو رہا ہے وہ بے نظیر کے ساتھ  بھی کیا جا چکا ہے‘

سلیم صافی نے کہا کہ آج جو کچھ نواز شریف کے ساتھ ہو رہا ہے یہی سب کچھ ماضی میں بے نظیر کے ساتھ کیا جا چکا ہے۔

جمہوری نظام اور جمہوری عمل کے متعلق گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ عالمی المیہ ہے کہ عوام نریندر مودی، بورس جانسن اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں، مودی اور ٹرمپ ہمارے لیے لاکھ برے سہی مگر اپنے اپنے ملک کی معیشت کو انہوں نے اچھے انداز سے سنبھال رکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مودی کی کامیاب خارجہ پالیسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ میں مودی پر پابندی تھی، اس نے وہاں اتنی لابنگ کی کہ اب وہ اور امریکی صدر ٹرمپ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر جلسے میں آئے۔

اس سوال پر کہ مولانا کے مارچ کے لیے فنڈنگ کون کر رہا ہے، معروف صحافی کا کہنا تھا کہ مولانا اور باقی جماعتوں کی زیادہ تر فنڈنگ گراس روٹ لیول سے آتی ہے ، اگر سیاسی جماعتوں کے اعلان کردہ فنڈز کو دیکھا جائے تو جماعت اسلامی امیر ترین سیاسی جماعت ہے کیونکہ ان کے پاس فنڈ اکٹھے کرنے کا باقاعدہ ایک نظام موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ میری جو رائے عمران خان کے دھرنوں کے بارے میں تھی وہی مولانا کے دھرنے کے بارے میں بھی ہے۔

’یو ٹرن لینے کو مسلمان کی شان کے خلاف کام سمجھتا ہوں‘

مولانا 27 اکتوبر کو اسلام آباد آئیں گے یا نہیں؟ اس سوال پر ان کا کہنا تھا کہ بظاہر تو وہ ایسا کرنے کے لیے پرعزم دِکھتے ہیں اور یو ٹرن لیتے نظر نہیں آتے۔

یوٹرن پر اپنی ذاتی آرا سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں ایسا کرنے والا آدمی نہیں ہوں، ایسا کرنے کو مسلمان کی شان کے خلاف کام سمجھتا ہوں۔

میزبانوں کی جانب سے پوچھے گئے اس سوال پر کہ کیا آزادی مارچ میں مذہب کارڈ بھی استعمال کیا جائے گا؟ ان کا کہنا تھا کہ جب عمران خان نے نواز شریف کے خلاف مذہب اور توہین رسالت کارڈ استعمال کیا تھا تو میں نے انداز میں بھرپور اس کی مخالفت اور مذمت کی تھی۔

سلیم صافی نے کہا کہ مولانا کو بھی یہی بولا ہے کہ اگر اس حکومت کے خلاف مذہب کارڈ استعمال کیا تو حتی المقدور آپ کے مقابلے میں آؤں گا، جواباً انہوں نے کہا ہے کہ میرے سارے مطالبات سیاسی ہیں، ایسی کوئی بات نہیں کی جائے گی۔


متعلقہ خبریں