سپریم کورٹ: راولپنڈی خود کش دهماکے کا ملزم عمر عدیل خان بری

سپریم کورٹ: راولپنڈی خود کش دهماکے کا ملزم عمر عدیل خان بری

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے آر اے بازار راولپنڈی خود کش دهماکہ میں مبینہ طور پر ملوث ملزم عمرعدیل خان کو بری کردیا۔ ٹرائل کورٹ نے عمرعدیل خان کو 20 مرتبہ سزائے موت کی سزا سنائی تھی۔ لاہور ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔ اس پر خود کش بمبار کی معاونت کا الزام تھا۔

2007 میں راولپنڈی بس میں ہونے والے خودکش دهماکے میں 20 افراد شہید اور 36 زخمی ہو گئے تهے۔

ہم نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت میں ویڈیو لنک کے ذریعے لاہور رجسٹری سے وکلا نے اپنے دلائل عدالت عظمیٰ کے گوش گذار کیے۔

سرکاری وکیل امجد رفیق ایڈووکیٹ نے عدالت کے روبرو مؤقف اپنایا کہ یہ عام دهماکہ نہیں بلکہ ٹاگیٹڈ بم دهماکہ تها۔ ان کا کہنا تھا کہ تین آدمی کار میں آئے ایک بس میں داخل ہوا جب کہ دو واپس چلے گئے. ان کا کہنا تھ اکہ جب کار واپس چلی گئی تو بس میں دهماکہ ہوا۔

ہم نیوز کے مطابق دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ جب گاڑی ٹریس ہو گئی تهی تو گیارہ ماہ تک رینٹ پر گاڑی لینے والے کا نام سامنے کیوں نہیں آیا؟ انہوں نے دریافت کیا کہ اگررینٹ اے کار کی رسید اصلی تهی تو پولیس کو پہلے دن سے پتہ تها کہ کار کس نے لی؟

بنچ کے رکن جسٹس سردار طارق محمود نے استفسار کیا کہ پولیس کو نام پتا تها تو ملزم کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟ سرکاری وکیل نے اس پر عدالت کو بتایا کہ گیارہ ماہ تک ملزم کی تلاش جاری رہی تھی۔

ہم نیوز کے مطابق جسٹس سردار طارق محمود نے اس پردریافت کیا کہ ملزم کا نام گیارہ ماہ تک ریکارڈ پر آیا ہی نہیں تو پهر آپ یہ کیسے کہہ رہے ہیں کہ اس کی تلاش جاری تهی؟

سرکاری وکیل امجد رفیق ایڈووکیٹ نے اس موقع پر مؤقف اپنایا کہ اس واقعہ میں 20 انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ انہوں نے استدعا کی کہ یہ ہمارے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے لوگ تهے. ان کا مؤقف تھا کہ اس کیس کو عام کیس کی طرح نہ دیکها جائے۔

ہم نیوز کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس موقع پر سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے بہت بڑی اسٹیٹمنٹ دی ہے کہ اس کیس کو عام قانون کی طرح نہ پرکهیں. انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ سرکار کی طرف سے ہیں حکومت قانون میں تبدیلی کرے تو ہم اس کے مطابق دیکھ سکتے ہیں۔

عدالت عظمیٰ کے سربراہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جو قانون موجود ہے وہ سب کے لیے برابرہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے سب کے لیے اسی قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہیں.

سرکاری وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اگر آپ کسی کے لیےمخصوص قانون چاہتے ہیں تو قانون سازی کروائیں. انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 20 قیمتی جانیں چلی گئیں سرکار نے اچها کیس نہیں بنایا۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے کسی قدر برہمی کے انداز میں کہا کہ ان لوگوں کی قوم کے لیے قربانیاں ہیں اور قوم نے ان کے لیے یہ کیس بنایا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ گیارہ ماہ بعد شناخت پریڈ لا رہے ہیں۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا گیارہ ماہ بعد کسی کی شکل یاد رہتی ہے؟

سپریم کورٹ آف پاکستان کے سربراہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ دو پولیس اہل کاروں کو گواہ بنا دیا گیا کیوں کے وردی میں حکم سے انکار نہیں کر سکتے. انہوں نے دریافت کیا کہ اتنے بڑے بازار میں اور کوئی گواہ نہیں ملا؟

چیف جسٹس آف پاکستان نے دوران سماعت کہا کہ ان گواہوں کی گواہی چار پانچ ماہ بعد لے کر ضمنی کے شروع میں ڈال دی گئیں۔ انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ہم نے اللہ کے سامنے جواب دینا ہے اور ہم نے حلف اٹهایا ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ قانون کے مطابق شہادت نہ ہو تو ہم کیا کریں؟

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ملوث ہونے میں ثابت کرنے کے لیے کچھ تو شہادت ہونی چاہیے. انہوں نے برہمی کے انداز میں کہا کہ اتنے بڑے کیس میں اتنی کمزور شہادت لائی گئی؟

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہم اسی معاشرے میں رہتے ہیں، ہمارے عزیزوں کے ساتھ بهی ایسا ہوتا ہے. انہوں نے کہا کہ جب ایسا ہوتا ہے تو بہت تکلیف ہوتی ہے مگر حلف یاد آتا ہے.

پاکستان کے چیف جسٹس نے عدالت عظمیٰ میں دوران سماعت کہا کہ حلف یاد آتا ہے کہ ہم نے اللہ کے سامنے قانون کے مطابق فیصلہ کیا تها کہ نہیں. انہوں نے واضح طور پر اپنے ریمارکس میں کہا کہ ملزم کا کسی دہشت گرد تنظیم سے تعلق بھی ثابت نہیں ہوا۔

ہم نیوز کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔


متعلقہ خبریں