وفاقی دارالحکومت کے سرکاری منصوبے میں ہولناک انکشافات



اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سرکاری ملازمین کے لیے تعمیر ہونے والی کثیر المنزلہ عمارتوں میں ہولناک غلطیوں کا انکشاف ہوا ہے۔

ہم نیوز کے پروگرام بریکنگ پوائنٹ ود مالک میں بات کرتے ہوئے اس بات کا انکشاف کیا گیا کہ وفاقی دارالحکومت میں بننے والی 22 کثیر المنزلہ عمارتوں میں بہت سارے نقص موجود ہیں جن پر 40 فیصد سے زیادہ کام کیا جا چکا ہے۔

پی ایچ اے فاؤنڈیشن کی زیر نگرانی بننے والا آئی 12 ہاؤسنگ پروجیکٹ جس طریقے سے بنایا جا رہا ہے اسے زندہ لوگوں کے مقبرے کہنا غلط نہ ہو گا کیونکہ یہ عمارتیں کوئی بھی بوجھ برداشت نہیں کر سکیں گی۔

اسلام آباد میں آٹھ اکتوبر 2005 کو آنے والے خوفناک زلزلے میں مرگلہ ٹاورز کو بھی نقصان پہنچا تھا لیکن اس کے باوجود وفاقی دارالحکومت میں کثیر المنزلہ عمارتیں نالے پر تعمیر کی جا رہی ہیں جو کسی بھی معمولی جھٹکے سے زمین بوس ہو سکتی ہیں۔

ہم نیوز کے میزبان محمد مالک نے انکشاف کیا کہ اتنے بڑی سرکاری منصوبے کا کوئی این او سی نہیں لیا گیا اور ہی اس کا ڈیزائن منظور شدہ ہے۔ جس کی وجہ سے کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اس کو2018 سے لے کر اب تک 3 دفعہ سیل کر چکی ہے لیکن اس کے باوجود عمارتوں کی تعمیر کا کام جاری رہا اور ٹھیکیداروں کو بغیر کسی رکاوٹ کے اربوں روپوں کی ادائیگیاں بھی کر دی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ گریڈ ایک سے گریڈ 16 کے ریٹائرڈ ملازمین کے لیے تعمیر کیا جا رہا ہے جو ممکن ہے اگلے 2 سالوں میں مکمل کر لیا جائے۔ سی ڈی اے اس منصوبے کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے جس میں مائن ہارٹ کمپنی بھی ملوث ہے۔

اس غیر قانونی منصوبے کی انویسٹی گیشن کے دوران میزبان کو کئی بار رشوت کی بھی آفر کی گئی جو انہوں نے ٹھکرا دی۔

پی ایچ اے فاؤنڈیشن اس منصوبے کی مد میں سرکاری ملازمین سے 8 ارب روپے آسان اقساط کی صورت میں وصول کر چکی ہے جو اپنا پیٹ کاٹ کر ادائیگیاں کر رہے ہیں۔

پروجیکٹ منیجر عمران یونس نے دعویٰ کیا کہ اس منصوبے کی 5 سے 6 جیو ٹیکنیکل انویسٹی گیشنز ہو چکی ہیں کاغذوں میں ایک غلطی ٹائپ ہو گئی ہے لیکن ایسا گراؤنڈ میں کچھ نہیں ہے۔ اسٹریکچر ڈیزائنر سعد سعود ہمارے ملازم نہیں ہیں وہ ہمارے کنٹریکٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

ہم نیوز کے میزبان کی جانب سے انہیں بتایا گیا کہ آپ کی جیو ٹیکنیکل کی کوئی بھی رپورٹ پی ایچ اے فاؤنڈیشن کے پاس موجود نہیں ہے تو انہوں نے فوراً کہہ دیا کہ ابھی جمع کرانی ہیں جبکہ منصوبے کو شروع ہوئے دو سال سے زائد ہو چکے ہیں۔

عمران یونس نے اس بات کو بھی قبول کیا کہ ڈیزائن کے بغیر تو ٹینڈر بھی نہیں ہو سکتا اور دعویٰ کر دیا کہ ہم نے 2016 میں ڈیزائن منظور کرا لیا تھا لیکن جب انہیں بتایا گیا کہ آپ کے ڈیزائن کی کاپیاں بھی پی ایچ اے فاؤنڈیشن کے پاس موجود نہیں تو وہ کوئی اطمینان بخش جواب نہیں دے سکے۔

پروجیکٹ منیجر مائن ہارٹ نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ یہاں سی ڈی اے کی پلاننگ میں نالے بننے ہیں لیکن یہاں بھی ان سے کوئی خاطر خواب جواب نہ بن سکا۔ انہوں نے سی ڈی اے کی جانب سے سیل کی بھی تصدیق کی لیکن پھر کہتے ہیں وہ ٹیکنیکلی سیل نہیں تھا۔

پروگرام کے میزبان نے عمران یونس سے استفسار کیا کہ اگر مائن ہارٹ کے پاس تمام ٹیکنیکلی رپورٹس موجود ہیں تو وہ پی ایچ اے فاؤنڈیشن کو جمع کیوں نہیں کرائی گئیں تو ان کا کہنا تھا کہ جلد جمع کرا دیں گے حالانکہ اس منصوبے کو شروع ہوئے بھی دو سال سے زائد ہو چکے ہیں جبکہ یہ رپورٹس تعمیرات شروع ہونے سے پہلے جمع کرائی جاتی ہیں۔ لیکن یہاں بھی وہ جھوٹ کا سہارا لے رہے تھے۔

محمد مالک نے انکشاف کیا کہ منصوبے میں جو سریہ استعمال ہو رہا ہے وہ بھی ٹیکنیکلی یہاں استعمال نہیں ہو سکتا۔ ان عمارتوں کی بنیادوں میں گریڈ 60 کا سریہ استعمال کیا جانا تھا لیکن یہاں بھی ڈنڈی ماری گئی اور گریڈ 40 کا سریہ استعمال کرتے ہوئے ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کو داؤ پر لگایا جا رہا ہے۔ کیونکہ یہ سریہ زیادہ عرصے تک وزن برداشت نہیں کر سکے گا۔

دلدل نما زمین پر کھڑی کی جانے والی عمارتوں کی جانب کسی کی توجہ ہی نہیں ہے کیونکہ یہ چھوٹے سرکاری ملازمین کے لیے ہے۔

ایم ڈی پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی طارق رشید بھی منصوبے کی تعمیر پر کوئی خاطر خواہ جواب نہ دے سکے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا پرانا پروجیکٹ ہے جو 2016 میں شروع ہوا تھا۔ یہ زمین ہم نے سی ڈی اے سے 2012 میں خریدی تھی بعد میں سی ڈی اے نے ہم سے اور قیمت طلب کی تھی جو ہم نے جمع کرا دی۔

ہم نیوز کی جانب سے جب انہیں اتنے بڑے منصوبے کی بنیادی اور ہولناک غلطیوں کے بارے میں آگاہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم اگلے ہفتے اس کی تحقیقات کرا رہے ہیں جبکہ ان کے دو سال سے جاری اس پروجیکٹ پر ان کے پاس بھی مائن ہارٹ کی کوئی رپورٹ موجود نہیں تھی۔


متعلقہ خبریں