مسلم لیگ ن میں 3 گروپس بننے کا انکشاف


کراچی: سینئر تجزیہ کار جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ نے انکشاف کیا کہ مسلم لیگ ن میں 3 گروپ بن چکے ہیں۔

ہم نیوز کے پروگرام ایجنڈا پاکستان میں میزبان عامر ضیا سے بات کرتے ہوئے تجزیہ کار جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے 3 گروپ تو بن چکے ہیں جو واضح ہیں۔ ایک گروپ وہ ہے جو نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہوا ہے اور دوسرا گروپ شہباز شریف کے ساتھ ہے جو سمجھتا ہے ہمیں حالات کے دھارے کے ساتھ چلنا ہے جبکہ تیسرا گروپ جو ہمیشہ سے بیچ میں رہا ہے اور اب زیادہ ابھر کر سامنے آ رہا ہے وہ لڑائی جھگڑے یا طاقت کے ساتھ ٹکراؤ پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمان کی جماعت ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے اور اب بھی کئی لوگوں کا خیال ہے اگر مولانا فضل الرحمان کو آگے کیا جائے تو ان کا اصل ایجنڈا کیا ہے۔

غلام مصطفیٰ نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے کارکنان نواز شریف کے کہنے پر باہر نہیں نکلیں گے کیونکہ اب نواز شریف اور ان کے خاندان پر کئی الزامات ہیں اور وہ مقدمات کی زد میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان ایک ایسی بند گلی میں آ گئے جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے جبکہ ن لیگ کے سمجھدار افراد اب نواز شریف کا ساتھ نہیں دیں گے۔

تجزیہ کار نے کہا کہ پاکستان کے معاملات انتہائی سنجیدہ ہیں اور یہ کوئی تصادم کو سہہ نہیں سکے گا۔ اب اگر محاذ آرائی ہوئی تو پاکستان کا نظام مزید تباہ ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے اگر مولانا فضل الرحمان کی وجہ سے حکومت گر بھی جاتی ہے تو پھر ملک کو کون سنبھالے گا ؟ اس وقت کوئی بھی پاکستان کی خدمت نہیں کر رہا۔ حزب اختلاف کو جمہوری راستہ اختیار کرنا چاہے لیکن وہ اس طرف نہیں جا رہے۔

چیف ایڈیٹر عوامی آواز جبار خٹک نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں بہت زیادہ عمل دخل ہے اور اسٹیبلشمنٹ نے بہت زیادہ پنیریاں بھی بنائی ہیں جو ملک پر اثر انداز ہوتی رہتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کی تربیت نواز شریف کے زیر اثر ہوئی ہے اور ان کی تربیت یہ ہے کہ معاملات کو دیکھ کر چلا جائے۔

جبار خٹک نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان سمجھدار اور زیرک سیاستدان ہیں وہ سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتے ہیں وہ مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی کے کہنے پر باہر نہیں نکل رہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم فورا ہی غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنا شروع کر دیتے ہیں ایسا نہیں ہونا چاہے۔ اختلاف اپنی جگہ لیکن کوئی بھی ملک کا غدار نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں نظریاتی بلاک ختم ہو گئے ہیں اور اب اقتصادیات کی طرف جا رہے ہیں۔

جبار خٹک نے کہا کہ سیلیکٹڈ وزیر اعظم کی طرح نیب بھی سیلیکٹڈ زدہ ہے۔ ہمارے ریاستی ادارے غیر جانبدار ایمپائر کا کردار ادا کریں تو جمہوری عمل مزید آگے بڑھے گا۔ جمہوریت کا راستہ بند کیا جائے گا تو غیر جمہوری طریقے ہی استعمال کیے جائیں گے۔

مسلم لیگ ن کے بزنس فورم کے صدر مرزا اشتیاق بیگ نے کہا کہ اختلاف رائے ہر پارٹی میں موجود ہوتا ہے لیکن کسی ایک فیصلے کو قبول کیا جاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ پر مسلم لیگ ن میں اختلافات تھے لیکن نواز شریف کے آزادی مارچ میں جانے کے فیصلے کو سب نے قبول کیا۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف اپنے بھائی کی باپ کی طرح عزت کرتے ہیں اور انہیں جب بھی بھائی کو چھوڑنے کی آفر آئی انہوں نے انکار کر دیا۔ دونوں بھائیوں میں کوئی ایسا اختلاف نہیں ہے کہ الگ گروپ کو لے کر چل رہے ہوں۔

مرزا اشتیاق بیگ نے کہا کہ پاکستان کی معیشت بری طرح سے متاثر ہو رہی ہے جس کی وجہ سے تاجر برادری کو آرمی چیف سے ملاقات کرنی پڑی۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ ملکی حالات کی وجہ سے کوئی بھی محب وطن شہری ملکی اداروں سے ٹکراؤ نہیں چاہے گا جبکہ مولانا فضل الرحمان کے احتجاج کی وجہ سے حکومت انتہائی پریشان ہے۔

اشتیاق بیگ نے کہا کہ حکومت نے سعودی عرب سے مولانا فضل الرحمان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے اور سعودی عرب کے ایک وفد نے سربراہ جے یو آئی ف سے ملاقات بھی کی ہے اور دھرنا روکنے کی درخواست کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں مولانا فضل الرحمان کی ممکنہ گرفتاری زیر غور

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے ایک سال میں ہی معیشت کو تباہ کر دیا اور حکومت کو درست انداز میں نہیں چلایا جا سکا۔ آزادی مارچ کا اصل مقصد ملک میں تبدیلی ہے۔

مسلم لیگی رہنما نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ فیصلہ کن ثابت ہو گا اس لیے کبھی بھی کلا بازی نہیں کھائیں گے۔ اگر حکومت اپنا بھرپور کردار ادا کرتی تو ایک سال بعد ہی ہونے والے آزادی مارچ کو پذیرائی نہیں ملتی۔

انہوں ںے کہا کہ ملک میں 35 سال تو جمہوریت ہی نہیں رہی اور گزشتہ دو حکومتوں کے علاوہ کسی نے بھی اپنا وقت پورا نہیں کیا۔

عامر ضیا نے کہا کہ ن لیگ کی معاشی پالیسیاں پہلے سے ہی درست نہیں تھیں اور معیشت دان تجزیہ کر رہے تھے کہ اگر ن لیگ نے پالیسی تبدیل نہ کی تو معیشت تباہ ہو جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم اصل مسائل کو درگرز کر کے ان مسائل پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں جو ہمارے آج کے مسائل نہیں ہیں۔


متعلقہ خبریں