ترکی کے حملے کو روکنے کے لیے تل تمر میں شامی فوج تعینات


بیروت: شام کے شمال مشرقی علاقے تل تمر میں ترکی کے حملے کو روکنے اور حملہ ہونے کی صورت میں مقابلہ کرنے کے لیے شامی فوج تعینات کر دی گئی ہے۔

یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب دمشق اور کردوں کی زیرقیادت فورسز کے درمیان خطے کا کنٹرول ہاتھ میں رکھنے کے لیے معاہدہ طے پایا ہے۔

تل تمر ایک چھوٹا قصبہ ہے مگر اسٹریٹجک لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل  ہائی وے (سڑک) یہاں واقع ہے جو کہ مشرق سے مغرب کی طرف لے کر جاتا ہے۔

اتوار کو ترکی کی فورسز نے ہائی وے پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ یاد رہے کہ انقرہ نے آپریشن سرحد کی اس جانب ’سیف زون‘ بنانے کے لیے شروع کیا تھا۔

ترکوں کے نزدیک کرد گوریلا جنگجو دراصل دہشت گرد ہیں۔

اس بابت کرد حکام کا کہنا ہے کہ شامی حکومت نے اپنی فوج کو شمالی سرحد پر بھیجنے پر اتفاق کیا ہے، ترکی کے شمالی شام میں داعش کے کیمپ پر حملے کی وجہ سے 800 قیدی فرار ہو گئے ہیں۔

ترکی کا اس صورت حال پر موقف ہے کہ داعش قیدیوں کے فرار کو امریکہ اور مغرب کو خوف زدہ کرنے کے لیے پروپیگنڈہ کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

ترک وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ ترک فورسز نے کردوں کے 181 ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جس میں 18 ترک شہریوں سمیت 104 کرد جنگجو ہلاک ہوئے۔

برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ امریکہ کی ‘غیر مستحکم’ صورت حال اور شام سے اپنی باقی تمام فوج کو نکالنے کے بعد سامنے آیا ہے۔

شام میں جاری جنگ کے تباہ کن صورت حال کا باعث بن رہی ہے، اقوام متحدہ کے مطابق جنگ کی وجہ سے اب تک ایک لاکھ تیس افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔


متعلقہ خبریں