برطانیہ، یورپی یونین کے درمیان بریگزٹ معاہدہ طے پا گیا


 تین سال سے زائد عرصے کے مزاکرات کے بعد برطانیہ اور یورپی یونین (ای یو) کے درمیان جمعرات کے روز  برسلز میں بریگزٹ معاہدہ طے پاگیا۔ 

برطانیہ اور پورپی یونین کے درمیان معاہدہ برسلز میں ہونے والے دو روزہ اجلاس شروع ہونے سے پہلے طے پاگیا۔

بریگزت معاہدہ پر پارلیمنٹ سے توثیق کے بعد برطانیہ ای یو بلاک  کو 31 اکتوبر کو خیرباد کہے گا، تاہم برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کو معاہدے کی توثیق کے لیے 650 نشستوں والی پارلیمنٹ میں 318 ووٹ درکار ہونگے۔

بریگزٹ معاہدے کی توثیق کے لیے برطانوی پارلیمنٹ کا خصوصی اور اہم اجلاس ہفتے کے روز طلب کیا گیا ہے۔

اگر پارلیمنٹ معاہدے کی توثیق نہیں کرتی تو برطانیہ میں بریگزٹ کے معاملے پر پھر سے ریفرنڈم  ہونے کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔

برسلز میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن، جو کہ بریگزٹ مہم میں پیش پہش رہے ہیں،  کا کہنا تھا کہ معاہدہ ہونا نہ ہونے سے ہمیشہ بہتر ہوتا ہے۔ ہمارے درمیان بریگزٹ کے معاملے پر اہم معاہدہ ہوا ہے۔

برسلز میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے مرکزی اپوزیشن لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربین نے کہا کہ وہ اس معاہدے سے ناخوش ہیں اور وہ اس کے خلاف ووٹ ڈالیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: ملکہ برطانیہ نے بریگزٹ التوا کے قانون کی منظوری دے دی

دریں اثناء  بورس جانسن کی اتحادی جماعت ڈیموکریٹک یونین پارٹی نے معاہدے کی مخالفت کرتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم کی حمایت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ڈیموکریٹک یونین پارٹی نے ایک بیان میں کہا کہ یہ تجاویز (معاہدہ) شمالی آئرلینڈ کی معاشی خوشحالی کے لیے فائدہ مند نہیں ہیں اور وہ برطانوی یونین کی سالمیت کو مجروح کرتی ہیں۔

معاہدے کے بعد اپنے ٹویٹر پیغام میں یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلاڈ جنکر نے کہا کہ یہ برطانیہ اور پورپی یونین دونوں کے لیے منصفانہ اور متوازن معاہدہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پورپی یونین کے دیگر 27 ممالک پر بھی زور دیتے ہیں کہ وہ اس معاہدے کے حمایت کریں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بریگزٹ معاہدے کی کامیابی سارا دارومدار اب  برطانوی پارلیمنٹ کی توثیق پر ہے۔ پارلیمنٹ کی جانب سے توثیق نہ ہونے کی صورت میں برطانیہ کا بلاک سے منظم انداد میں دستبرداری مشکل میں پڑسکتی ہے اور برطانیہ کو دوبارہ سے ریفرنڈم کی طرف جانا پڑسکتا ہے۔

 


متعلقہ خبریں