امریکی صدر کا خط، شامی آپریشن پر ترکی مؤقف پر قائم


اسلام آباد: پاکستان میں تعینات ترکی کے سفیر احسان مصطفیٰ یرداکل کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دھمکی آمیز خط کے باوجود ان کا ملک شام میں جاری آپریشن سے متعلق اپنے مؤقف پر قائم ہے۔

ہم نیوز کے پروگرام بڑی بات ود عادل شاہ زیب کے ساتھ خصوصی بات کرتے ہوئے ترک سفیر نے کہا کہ امریکی صدر کی جانب سے ترک صدر کو لکھا گیا خط اس مؤقف کی ترجمانی نہیں کرتا جس کی ایک اتحادی کو دوسرے اتحادی سے امید ہوتی ہے۔

انہوں نے  کہا کہ ترک صدر رجب طیب اردوان کا دورہ پاکستان عارضی طور پر ملتوی ہوا ہے اور جب شام سے متعلق صورتحال بہتر ہوگی تو اس دورے کی نئی تاریخ کا اعلان کردیا جائے گا جس کیلئے پاکستانی حکام سے رابطے میں ہیں۔

ترکی کے سفیر نے کہا کہ ترکی اور امریکہ کے درمیان 60 برس پرانے تعلقات ہیں اور ترکی امریکہ کا اتحادی بھی ہے۔ چاہے وہ نیٹو الائنس ہو یا نائن الیون کے بعد دہشتگردی کے خلاف امریکی آپریشن کی حمایت ہو۔

ترک سفیر کے بقول اس وقت آپریشن پیس سپریم چل رہا ہے اور اس کے انتہائی مثبت نتائج مل رہے ہیں۔ اس آپریشن کا مقصد شام کے ساتھ ترک سرحد کو محفوظ کرنا ہے۔ یہ ہماری عوام کی حفاظت کیلئے ضروری ہے کیونکہ ماضی میں سرحد پار سے ان دہشتگرد گروہوں کی جانب سے حملے کیے گئے جنہوں نے شام میں پناہ لے رکھی ہے۔چاہے وہ داعش ہو یا پی کے کے۔ یہ مسئلہ ترکی کی قومی سلامتی کا ہے۔

احسان مصطفیٰ یرداکل نے کہا کہ ترکی میں 40 لاکھ شامی پناہ گزین ہیں تاہم اب وقت آگیا ہے کہ ان پناہ گزینوں کو واپس شام بھیجیں۔ جس کیلئے اس آپریشن کے ذریعے شام کے کچھ حصوں کو ان دہشتگردوں سے پاک کر رہے ہیں تاکہ ان پناہ گزینوں کو محفوظ جگہ ملے۔

مسئلہ کشمیر سے متعلق بات کرتے مصطفی یرداکل کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ پلواما سے بھی پہلے کا ہے۔ ہم نے پلوامہ واقعہ کی بھی مذمت کی تھی لیکن ترکی سمجھتا ہے کہ اس کے پیچھے ایک مسئلہ ہے اور وہ کشمیر ہے ۔ ہم ہمیشہ سے پاکستا ن اور انڈیا کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے آوازیں اٹھاتے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ دیگر ممالک اس طرح کا مؤقف لینے سے گھبراتے ہیں لیکن بطور سفارت کار میں یہ امید رکھتا ہوں کہ اس معاملے پر دنیا کو آوازیں اٹھانی چاہیئیں۔ خاص طور پر کشمیر میں 70 دنوں سے جو کچھ ہو رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے۔ اس وقت تک عالمی دنیا کا کشمیر کے معاملے پر آواز نہ اٹھانا صرف دوہرا معیار ہے۔

اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک ہم منصب کے ساتھ ایک خط کے ذریعے رابطہ کیا ہے جس میں طیب ایردوان کو مذاکرات کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک ہم منصب طیب ایردوان کو پیغام بھجوایا ہے کہ کرد جنرل مظلوم آپ سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ خط کے متن میں درج ہے کہ ’میں نےآپ کے کئی مسائل حل کیے، آپ ایک عمدہ سمجھوتہ کرسکتے ہیں اور دنیا کو نیچا نہ دکھائیں‘۔

امریکی صدر نے لکھا کہ جنرل مظلوم آپ سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ آپ ہزاروں افراد کو قتل کرنے کا ذمے دار نہیں بننا چاہتے اور نہ میں ترک معیشت تباہ کرنے کا ذمے دار بننا چاہتا ہوں۔


متعلقہ خبریں