’عمران خان نے اپنی ٹیم کا انتخاب میرٹ پر نہیں کیا‘


اسلام آباد: تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ میرٹ کی مثالیں دینے والے وزیراعظم عمران خان نے خود اپنی ٹیم کے انتخاب کے وقت میرٹ کا خیال نہیں رکھا ہے۔

ہم نیوز کے پروگرام ویوزمیکرز میں میزبان زریاب عارف سے گفتگو کرتے ہوئے سینیئر تجزیہ کار عامر ضیاء نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان یہ بات کرتے ہیں لیکن انہوں نے خود اس معاملے میں احتیاط کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ ان کی کابینہ میں کئی متنازعہ لوگ بھی شامل ہیں، کچھ ایسے بھی ہیں جن کے بغیر وہ کام کرسکتے ہیں۔ اگر وہ ایسے کرتے ہیں تو اس سے نہ صرف تحریک انصاف بلکہ پاکستان کا بھی فائدہ ہوگا۔

تجزیہ کار رضا رومی نے کہا کہ میرٹ کا خواب بہت اچھا ہے اور مڈل کلاس میں مقبول بھی ہے۔ عمران خان کی سیاست کا مرکزی خیال یہی ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ انہوں نے اقتدار میں آنے کے معاملے میرٹ کو مکمل طور پر نظرانداز کیا۔

سینیئر تجزیہ کار ناصربیگ چغتائی نے کہا کہ عمران خان کی کابینہ میں بہت سارے لوگ وہ ہیں جن کا انتخاب میرٹ پر نہیں ہوسکتا۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا کہ عمران خان سے توقع تھی کہ وہ اداروں میں بہتر لوگ لائیں گے لیکن انہوں نے بھی اس حوالے سے مایوس کیا ہے۔

کامیاب جوان پروگرام سے متعلق سوال کے جواب میں مشرف زیدی نے کہا کہ یہ اہم کام ہے کہ حکومت کو لوگوں کی مدد کرنی چاہیے جن کے پاس وسائل نہ ہوں۔

ناصربیگ چغتائی نے کہا کہ یہ پہلا پروگرام نہیں ہے اس سے پہلے بھی آچکے ہیں، بے روزگاروں کے لیے یہ اچھی بات ہے لیکن اگر میرٹ پر یہ کیا گیا تو اس کا بہت فائدہ ہوگا۔

عامر ضیاء نے اپنے تجزیے میں کہا کہ نوجوانوں کو موقع ملنا اچھی بات ہے اور جب بھی انہیں موقع ملتا ہے تو وہ کامیابی کی اچھی مثالیں قائم کرتے ہیں۔ رضارومی نے کہا کہ کامیابی کاپتہ تو وقت کے ساتھ لگے لیکن نوجوانوں کی ہر صورت حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ پروگرام کے لیے بڑی تیاری بھی درکار ہوتی ہے۔

امجد شعیب نے کہا کہ یہ منصوبہ اچھا ہے امید ہے حکومت نے اس کی اچھی تیاری بھی کی ہوگی اور اسے اچھی طرح نافذ بھی کرسکے گی۔

عدلیہ کے ریمارکس سے متعلق سوال کے جواب میں رضا رومی کا کہنا تھا کہ عدلیہ کیسز کے حوالے سے سوال پوچھتی ہے لیکن میڈیا انہیں خبر بنا دیتا ہے، ججز کی رائے فیصلوں یا حکم سے ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:آزادی مارچ: حکومتی کمیٹی نے حزب اختلاف سے رابطے شروع کردیے

امجد شعیب نے کہا کہ ایف بی آر کی کارکردگی ہمیشہ سے ہی سوالات کی زد میں رہی ہے ، ادارے میں بہتری کی گنجائش موجود ہے لیکن ریمارکس محتاط ہونے چاہیئں۔
ناصربیگ چغتائی نے کہا کہ وزیراعظم بھی ایف بی آر کے حوالے سے کہے چکے ہیں کہ اسے ختم بھی کرسکتے ہیں، ریمارکس فیصلے کا حصہ نہیں ہوتے ۔

مشرف زیدی نے کہا کہ عدلیہ کی بحالی کے بعد انتطامیہ میں مداخلت بہت زیادہ بڑھ گئی تھی، جب اداروں کی جانب سے ایسے بیانات آتے ہین تو اس کے اثرات بھی ہوتے ہیں۔

.عامر ضیاء نے کہا کہ اداروں کو ختم کرنا مسئلے کا حل نہیں بلکہ ان کا علاج ہونا چاہیے۔ شکایات پر اتنی سختی بات کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔


متعلقہ خبریں