آٹو سیکٹر سے ساڑھے تین ماہ میں 40 ہزار ملازمین برطرف

آٹو سیکٹر سے ساڑھے تین ماہ میں 40 ہزار ملازمین برطرف

کراچی: گاڑیوں اور ان کے پرزوں کی فروخت میں آنے والی کمی کے باعث گزشتہ ساڑھے تین ماہ کے دوران 40 ہزار ملازمین کو برطرف کیا جا چکا ہے۔ یہ دعویٰ پاکستان ایسوسی ایشی برائے آٹوموبائل پارٹس اینڈ ایسسریز مینوفیکچرر (پاپم) کے چیئرمین کیپٹن (ر) محمد اکرم نے مقامی انگریزی اخبار سے بات چیت کرتے ہوئے کیا ہے۔

نئی گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ

انہوں نے مقامی انگریزی اخبار کو بتایا ہے کہ انہیں ملک بھر میں ایسوسی ایشن کے 400 اراکین کی جانب سے گاڑیوں کے پرزوں کی فروخت میں کمی کی وجہ سے 40 ہزار ملازمین کی برطرفی کی اطلاع ملی ہے۔

ہم نیوز کے مطابق انہوں نے بتایا کہ مارکیٹ میں پرزے فروخت کرنے والے تقریباً 1500 سے 2000  چھوٹے و درمیانے دکانداروں پر اس کا اتنا زیادہ اثر نہیں پڑا ہے کیونکہ وہ مارکیٹ میں اپنا سامان فروخت کرتے ہیں لیکن پاپم کے 400 اراکین جو گاڑی ساز کمپنیوں کو پرزے فراہم کرتے تھے ان پر انتہائی منفی اثر پڑا ہے۔

محمد اکرم نے انگریزی اخبار کو بتایا کہ ان کے خیال میں گاڑیوں کی فروخت میں جس تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے اس سے گمان ہورہا ہے کہ آئندہ دو سے تین ماہ میں مزید ملازمین کی برطرفیاں سامنے آئیں گی۔

ان کا کہنا ہے کہ آئندہ ہونے والی برطرفیاں عارضی و کنٹریکٹ ملازمین کے بعد ان ملازمین کی بھی ہوں گی جو مستقل بنیادوں پر ملازمتیں کررہے ہیں۔ 40 ہزار ملازمین کی برطرفیاں جولائی سے وسط اکتوبرتک کے درمیانی عرصے میں سامنے آئی ہیں۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پاکستان ایسوسی ایشن برائے آٹوموبائل پارٹس اینڈ ایسسریز مینوفیکچرر (پاپم) کے چیئرمین کیپٹن (ر) محمد اکرم نے دعویٰ کیا ہے کہ گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی قیمت کی اہم وجہ مقامی سطح پر گاڑیوں کے پرزے کم بننا ہے۔

ہنڈا اور ٹیوٹا کے پروڈکشن پلانٹ اکتوبر میں بھی بند رہیں گے

انہوں نے کہا کہ اسمبل کرنے والی کمپنیوں کا زیادہ تر پرزے مقامی طور پر حاصل کرنے کا دعویٰ جھوٹا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں اس کا ثبوت دے سکتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ گاڑی کی پیداوار مقامی سطح پر ہونے سے گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی آسکتی ہے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ مقامی اسمبلرز گاڑیوں کی قیمتیں مستقل بنیادوں پر بڑھا رہے ہیں لیکن اس کا فائدہ ہمیں نہیں دے رہا ہے۔


متعلقہ خبریں