شام میں ترک آپریشن کے دوران 2612 دہشت گرد ‘غیرموثر’

شام میں ترک آپریشن کے دوران 2612 دہشت گرد 'غیرموثر' | urduhumnews.wpengine.com

انقرہ: ترک عسکری حکام کا کہنا ہے کہ شام کے علاقے عفرین میں جاری آپریشن ‘شاخ زیتون’ کے دوران اب تک دو ہزار 612 دہشتگردوں کو ‘غیرموثر’ کیا گیا ہے۔

حالیہ بیان میں ترک عسکری فورسز (ٹی ایس کے) نے نیوٹریلائز ‘غیر موثر’ کی اصطلاح استعمال کی ہے جس سے مراد زندہ یا مردہ گرفتار کئے گئے دہشت گرد ہیں۔ عموما یہ اصطلاح آپریشنز کے دوران مارے جانے والے دہشت گروں کے متعلق ہی استعمال کی جاتی ہے۔

ترکی کے سرکاری خبررساں ادارے اناطولیہ ایجنسی (اے اے) کا کہنا ہے کہ ترک فورسز اور فری سیرین آرمی نے عفرین کے علاقے میں راجو کے گاؤں حاجی خلیل کو آزاد کروا لیا ہے۔ کارروائی میں دہشت گرد قرار دی گئی کرد علیحدگی پسندوں کی تنظیم سے وابستہ ڈیموکریٹک یونین پارٹی کے مسلح ونگ وائی پی جے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

آپریشن شاخ زیتون میں بلبل اور راجو نامی علاقوں کے بعد عفرین کے مغرب میں واقع شیخ الحدید نامی علاقہ بھی کرد علیحدگی پسندوں سے خالی کروا لیا گیا ہے۔

26 فروری کے بعد سے جاری آپریشن شام کے صوبے ادلب کے علاوہ حلب صوبے کے اعزاز ضلع سے دہشت گردوں کا رابطہ منقطع کر دیا گیا ہے۔ ترک سرحد کے ساتھ واقع ان علاقوں میں کرد علیحدگی پسند اور ان کی حمایت کرنے والی سیرین فوج کے مخصوص دستے موجود تھے۔ ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا بھی علاقے پر کنٹرول رکھنے کی کاوشوں میں شام اور کردوں کی معاونت کر رہی تھی۔

20 جنوری کو ترکی کی جانب سے شروع کردہ آپریشن ‘شاخ زیتون’ کا مقصد پی کے کے، پی وائی ڈی، وائی پی جی اور داعش کو شمال مغربی شامی علاقے عفرین سے باہر نکالنا بتایا گیا تھا۔

ترک حکام کے مطابق آپریشن کے نتیجے میں ترک سرحد کے ساتھ موجود علاقے کو محفوظ بنانے کے علاوہ شامی عوام کو بھی دہشت گردوں سے نجات دلائی جانی ہے۔

ترک عسکری حکام کا کہنا ہے کہ آپریشن کے دوران سویلین کو کسی بھی ممکنہ نقصان سے بچانا اولین ترجیح ہے۔

قبل ازیں ترکی 24 اگست 2016 سے مارچ 2017 کے دوران شمالی شام میں بھی داعش کے خلاف آپریشن کر چکا ہے۔ ترک صوبوں حاتے اور کیلیس سے ملحق علاقے میں کی گئی کارروائی کے دوران شدت پسند تنظیم کو پیچھے دھکیلا گیا تھا۔

شام کا عفرین نامی علاقے 2012 کے بعد ترک علیحدگی پسندوں کی پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہو رہا تھا۔ اس وقت بشار الاسد کی فوج نے بغیر لڑے عفرین کو پی کے کے اور وائی پی جے کے حوالے کر دیا تھا۔

چند روز قبل شام کی صورتحال پر نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم نے تصدیق کی تھی کہ عفرین پر ترک طیاروں کے حملوں میں شامی فورسز کے حامی کم از کم 36 جنگجو ہلاک ہوگئے ہیں۔

سیریئن ڈیموکریٹک فورسز ‘ایس ڈی ایف’ نے بھی ایک بیان میں ترک فضائی حملوں کی تصدیق کی ہے لیکن اس نے اہداف اور مارے جانے والوں کے بارے میں تفصیل نہیں بتائی۔ ایس ڈی ایف کردش پیپلز پروٹیکشن یونٹس ‘وائے پی جی’ کی زیر قیادت کارروائیاں کرنے والے اتحاد کا حصہ ہے۔

برطانیہ میں قائم تنظیم سریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا تھا کہ شامی حکومت کی حامی فورسز پر 48 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں کی جانے والی یہ تیسری بڑی کارروائی تھی۔ بشارالاسد حکومت نواز یہ فورسز گزشتہ ہفتے عفرین پہنچی تھیں تا کہ ‘وائے پی جی’ کی مدد کی جا سکے۔

آبزرویٹری کے مطابق ترکی کی زیرقیادت فورسز نے عفرین کے تقریباً 20 فیصد سے زائد حصے کا کنٹرول سنبھال لیا ہے ۔

ترکی ‘وائے پی جی’ کو کردستان ورکرز پارٹی ‘پی کے کے’ کی شاخ تصور کرتا ہے جو ترکی میں گزشتہ تین دہائیوں سے فورسز کے ساتھ برسرپیکار ہے۔ پی کے کے کو امریکہ اور یورپی یونین بھی ایک دہشت گرد تنظیم تصور کرتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف ‘وائے پی جی’ شام میں داعش کے خلاف امریکی حمایت یافتہ فورسز کا اہم حصہ بھی ہے۔


متعلقہ خبریں