‘فضل الرحمان دو تین ہفتوں سے پہلے واپس نہیں جائیں گے’


اسلام آباد: جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانافضل الرحمان کی مذاکرات کیلئے وزیراعظم کے استعفے کی شرط ابھی تک برقرار ہے اور وہ صرف چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے ملنے کیلئے تیار ہے۔

ملک کے ناموصحافی حامد میر نے انکشاف کیا ہے کہ اگر مولانا کا مارچ 31 اکتوبرکو اسلام آباد میں داخل ہو گیا تو وہ ڈی چوک میں دھرنا دے دیں گے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ مولانا فضل الرحمان، مسلم لیگ ن کے تاحیات قائد نوازشریف اور مرکزی صدر شہبازشریف ایک ہی صحفے پر ہیں۔

یہ پڑھیں: حکومت کیخلاف جمہوری ہتھیار استعمال کرنا آئینی حق ہے

حامر میر نے دعویٰ کیا ہے کہ جمیعت علمائے اسلام کا دھرنا دو تین ہفتوں سے پہلے ختم نہیں ہوگا جب کہ شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن کی گفتگو سے بھی مذاکرات کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے۔

نجی ٹی وی کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے مذاکرات کی کوشش شروع کرنے میں بہت تاخیر کردی جب کہ وزیراعظم کی تقریر اور حکومتی رہنماؤں کے قبل از وقت بیانات کی وجہ سے مذاکرات کا ماحول خراب ہوا۔

خیال رہے کہ جمیعت علمائے اسلام 27 اکتوبر سے ملک بھر میں آزادی مارچ کا اعلان کر رکھا ہے اور 31 اکتوبر کو قافلے اسلام آباد میں داخل ہوں گے۔

جے یو آئی رہنما حافظ حمد اللہ نے کہا ہے کہ حکومت کیخلاف جمہوری ہتھیار استعمال کرنا ان کا آئینی و جمہوری حق ہے۔

حافظ حمداللہ کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی اقتدار کی بھوکی نہیں اور نہ یہ ان کا مسئلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2013 کے انتخابات میں بھی دھاندلی ہوئی مگر 2018 کی طرح کسی جامع منصوبے کے تحت نہیں ہوئی۔

جے یو آئی رہنما کا کہنا تھا کہ 2008 کے انتخابات میں بھی دھاندلی ہوئی اور ایسا ہم کب تک برداشت کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن کی جنگ تمام اپوزیشن جماعتوں کی جنگ ہے اور ہمارا مسئلہ اقتدار نہیں بلکہ انتخابات میں تسلسل سے دھاندلی ہے۔


متعلقہ خبریں