کے پی: اراکین اسمبلی کے ترقیاتی فنڈز پر پابندی، ملازمین کے الاؤنسز میں اضافہ

کے پی: اراکین اسمبلی کے ترقیاتی فنڈز پر پابندی ،ملازمین کے الاؤنسز میں اضافہ

پشاور: صوبہ خیبرپختونخوا میں اراکین اسمبلی کو حلقوں کے نام پر ترقیاتی فنڈز نہیں ملیں گے۔ یہ فیصلہ کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا جو صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم نے ذرائع ابلاغ کو بتایا۔ صوبائی کابینہ نے نئی اے ڈی پی پالیسی کی بھی منظوری دی۔

خیبرپختونخوا کابینہ اجلاس کے اختتام پر صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم نے بتایا کہ صوبہ کے پی میں اب وہاں ترقیاتی فنڈز لگائے جائیں گے جہاں ان کی ضرورت ہوگی۔ انہوں نے واضح طور پراعلان کیا کہ اراکین اسمبلی کو حلقوں کیے نام پر ترقیاتی فنڈز نہیں ملیں گے۔

پنجاب حکومت نے بیوروکریٹس کی تنخواہوں میں 150 فیصد اضافہ کر دیا

ہم نیوز کے مطابق صوبائی وزیر خزانہ نے بتایا کہ کابینہ اجلاس میں کیے جانے والے فیصلے کی وجہ سے کسی حلقے یا اراکین اسمبلی میں ترقیاتی فنڈز کی بندر بانٹ نہیں ہوگی۔

تیمور سلیم نے بتایا کہ کابینہ نے صوبائی سیکریٹریٹ ملازمین کے الاؤنسز میں 20 فیصد اضافے کی بھی منطوری دی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کابینہ نے الاؤنسز کے اجرا کو ملازمین کی کارکردگی سے مشروط کردیا ہے۔

صوبائی وزیرخزانہ نے ذرائع ابلاغ کے سامنے دعویٰ کیا کہ خیبرپختونخوا انقلابی فیصلہ کرنے والا پہلا صوبہ بن گیا ہے۔

ہم نیوز کے مطابق ایک سوال کے جواب میں تیمور سلیم نے کہا کہ کابینہ اجلاس سے سابق وزرائے اعلیٰ اور گورنروں سے سیکورٹی واپس لینے کا نکتہ ایجنڈے سے ہٹا دیا گیا تھا۔

جمعیت العلمائے اسلام (ف) کی جانب سے اعلان کردہ آزادی مارچ کے متعلق پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم نے کہا کہ ازادی مارچ پرکوئی بات نہیں ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آزادی مارچ سے ویسے بھی کچھ ہونے والا نہیں ہے۔

ترقیاتی اسکیموں کیلئے اراکین اسمبلی کو فنڈز جاری کرنے کی منظوری

صوبہ خیبرپختونخوا کی حکومت نے جس طرح صرف سیکریٹریٹ ملازمین کے الاؤنسز میں اضافہ کرکے دیگر صوبائی ملازمین کو نظر انداز کیا ہے بالکل اسی طرح یکم اکتوبر کو پنجاب حکومت نے بھی صوبائی اسمبلی کی منظوری کے بغیر مخصوص بیوروکریٹس کی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ کرکے دیگر ملازمین کو یکسر نظر انداز کیا تھا۔

پنجاب حکومت نے جن افسران کی تنخواہوں میں اضافہ کیا تھا ان کی تعداد 1700 بتائی گئی تھی۔ افسوسناک حکومتی فیصلے سے پروفیسرز، اساتذہ، ڈاکٹروں اور انجینئرزسمیت دیگر کسی بھی شعبے کے سرکاری ملازمین کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا تھا۔


متعلقہ خبریں