’رجسٹرڈ ٹیکس پیئر بزنس مین کو گرفتار کرکے ایف بی آر کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟‘

عوامی اور سرکاری زمینوں پر پیٹرول پمپس کیسے تعمیر ہو گئے ؟ چیف جسٹس

سپریم کورٹ کے سینیئر جسٹس عمر عطا بندیال نے پاکستان میں محصولات اکٹھا کرنے والے ادارے کے سامنے  سوال اٹھایا ہے کہ رجسٹرڈ ٹیکس پیئر بزنس مین کو گرفتار کرکے ایف بی آر کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟

انہوں نے یہ سوال آج سپریم کورٹ میں ایف بی آر کے فوجداری اختیارات سے متعلق کیس کی سماعت دوران پوچھا ۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے سماعت کے آغاز پر کہا کہ بزنس کمیونٹی کے خلاف ایف بی آر کے فوجداری اختیارات کے ختم استعمال کی بہت زیادہ شکایات ہیں۔

جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ ایف بی آر رات کو دو بجے گھر پر چھاپہ مار کر بندہ اٹھا لیتا ہے،گرفتار شخص کا بازو مروڑ کر کہا جاتا ہے کہ اتنی رقم دو ورنہ جیل بھیج دیں گے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کمپنیوں کے تمام بورڈ اور ڈائریکٹرز کو اٹھا لیا جاتا ہے۔

اس کے فوراًبعد جسٹس فیصل عرب نے آبزرویشن دی کی جس شخص نے زندگی میں تھانے کی شکل نہیں دیکھی ہوتی اسے جیل بھجوا دیا جاتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بزنس مین اپنی عزت نفس کو بچانے کے لیئے پیسے دے دیتا ہے،بزنس مین کو گرفتاری کے بعد بلیک میل کیا جاتا ہے۔

بنچ کے ممبر جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ کہ رجسٹرڈ بزنس مین کو گرفتار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

اسی طرح جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال اٹھایا کہ کیا بزنس مین بزنس چھوڑ کر بیرون ملک بھاگ جائے گا؟

بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے آبزرویشن دی کہ پہلی سطح پر گرفتاری کی بجائے انکوائری کی جانی چاہیے۔

ٹیکس ماہر ڈاکٹر محمد طارق مسعود نے عدالت کو بتایا کہ بعض لوگوں نے جعلی اور دوسرے لوگوں کے نام کمپنیاں رجسٹرڈ کروائی ہوتی ہیں۔

اس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا یہ تو پھر ایف بی آر کی نااہلی ہے وہ رجسٹریشن کرتے وقت چیک کیوں نہیں کرتا، ایف بی آر کو جعلی کمپنیوں کی رجسٹریشن کو معطل کرنا چاہیے۔

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ جعلی بینک اکاؤنٹس اور اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے بھی مقدمات چل رہے ہیں۔

ڈاکٹر طارق مسعود نے کہا کہ بزنس کمیونٹی کی گرفتاری کے عمل کی حوصلہ شکنی کے لیئے قوائد میں ترمیم ضروری ہے،کوشش ہے کہ اگر گرفتاری ضروری ہو تو کم از کم کمشنر اس کی منظوری دے۔

عدالت نے ٹیکس گزاروں کے وکلاء سے آئندہ سماعت پر نظام میں بہتری کے لیئے تجاویز طلب کر لیں اور کہا کہ اس ضمن میں وکلاء تحریری تجاویز عدالت میں جمع کروائیں۔

یہ بھی پڑھیے: فریقین کے مابین دہشت گردی کے مقدمہ میں صلح سے مجرم کی رہائی ممکن نہیں، سپریم کورٹ

کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی گئی ۔


متعلقہ خبریں