بلاگ: دھرنے۔۔۔ آخر کب تک؟

بلاگ: دھرنے۔۔۔ آخر کب تک؟

14 اگست 1947 کو آزادی کا سورج طلوع ہونے کے بعد سے وطن عزیز کی تاریخ مختلف تحریکوں سے بھری پڑی ہے جن کے باعث ملک سیاسی افراتفری کے مناظر دیکھتا رہا ہے اور یہاں جمہوریت کبھی مستحکم نہیں رہ پائی ۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف ادوار میں ملک کے اندر تحریکیں، لانگ مارچ اور دھرنے ہوتے رہے ہیں۔

1968 میں فیلڈ مارشل (ر) ایوب خان کی آمریت کے خلاف ڈاکٹر رشید حسن خان اور معراج محمد خان کی جمہوریت بحالی تحریک ہو یا 1977 کا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد، 1981 میں ضیاالحق کے خلاف ایم آر ڈی تحریک ہو یا 90 کی دہائی میں قاضی حسین احمد کی سربراہی میں جماعت اسلامی کے بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتوں کے  خلاف لانگ مارچ، 2007 میں پرویز مشرف کے خلاف میاں نواز شریف اور افتحار چوہدری کی عدلیہ بحالی تحریک ہو یا 2013 میں طاہر القادری کا آصف علی زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف دھرنا، 2014 میں عمران خان کا نواز شریف کے خلاف ملک گیر آزادی مارچ اور126 دن کا طویل دھرنا ہو یا 2017 میں علامہ خادم رضوی کا پاکستان مسلم لیگ ن حکومت کے خلاف فیض آباد دھرنا ہو، 2018 میں آسیہ مسیح کی رہائی کے بعد پھر علامہ خادم رضوی کا عمران خان کی حکومت کے خلاف دھرنا ہو یا جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا فضل الرحمان کا 27 اکتوبر کا متوقع لانگ مارچ اور دھرنا ہو۔۔۔ ان تمام واقعات میں سے کسی کو بھی جائز اور جمہوری نہیں کہا جا سکتا۔

آج کل ہر جانب عمران خان  اور مولانا فضل الرحمان کے آنے والے دھرنے کا تقابلی جائزہ کیا جا رہا ہے۔ یہ بخث سوشل میڈٰیا سے لے کر نشریاتی اداروں تک پھیلی ہوئی ہے۔ حکومتی وزرا دھرنے کے نقصانات بتا رہے ہیں اور حزب اختلاف حصوصاً جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما اور سوشل میڈیا ٹیمیں تحریک انصاف کے پرانے بیانات دکھا اور سنا رہے ہیں۔ اسی طرح حکومتی ترجمان اور سوشل میڈیا ٹیمیں بھی 2014 کے دھرنے کے خلاف دیے گئے حزب اختلاف کے بیانات چلا رہے ہیں۔ یہ جنگ جاری و ساری ہے۔ اس صورتحال میں میرا دونوں اطراف سے سوال ہے کہ عمران خان کا دھرنا حرام تھا تو ااب مولانا کا حلال کیسے ہو گیا؟ اور اگر اس وقت عمران خان کا دھرنا اور احتجاج جمہوری حق تھا تو کیا مولانا اس جمہور کا حصہ نہیں ہیں؟

سینئیر صحافیوں اور تجزیہ کاروں کے مطابق موجودہ وزیر اعظم عمران خان وہی فصل کاٹ رہے ہیں جس کے بیج انہوں نے بوئے تھے۔ عمران خان نے جو گانٹھیں ہاتھ سے باندھی تھیں وہ اب دانتوں سے کھولنی پڑ رہی ہیں۔ عمران خان بیک وقت اتنے خوش قسمت اور بد قسمت ہیں کہ ان کے آگے ساری وہی باتیں آ رہی ہیں جو وہ اس وقت کیا کرتے تھے۔

قطع نظر اس سب سے کہ کونسا دھرنا اور کونسی تحریک ٹھیک تھی یا غلط ، مقاصد منفی تھے یا مثبت ، عوام کے حق میں تھا یا خلاف ، یہ ملک مزید دھرنوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہم کب تک پاکستان اور پاکستان کے عوام کو دھرنے والوں کے رحم و کرم پر چھوڑیں گے؟ ہمیں اب سیاسی فوائد کے لئے اس بدنما روایت کو ختم کرنا ہو گا۔ اگر مولانا فضل الرحمان دھرنا دینے میں کامیاب ہو گئے تو کل کو یہی سب کچھ ان اپنے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ اسی تناظر میں احمد فراز کا شعر ہے:

میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو

چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

یہ پھرنی کا پھیر ہے ، اس سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ حکومت کو بھی چاہئیے کہ اپنے وزرا کی چرب زبانی کو کنٹرول کرے، افہام و تفہیم سے کام لے، حزب اختلاف کے ساتھ مل بیٹھ کر مسائل کا حل ڈھونڈے اور ان کے تخفظات دور کرے ، ایسا نہ کیا گیا تو تاریخ ان سب میں سے کسی کو بھی معاف نہیں کرے گی۔


متعلقہ خبریں