’چیئرمین نیب کے پاس ڈیل یا ڈھیل کا اختیار نہیں‘


اسلام آباد: تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کے پاس کسی کو ڈیل یا ڈھیل دینے کا اختیار نہیں ہے، انہیں ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہیے۔

پروگرام ویوزمیکرز میں میزبان زریاب عارف سے گفتگو کرتے ہوئے سینیئر تجزیہ کار غلام مصطفی نے کہا کہ چیئرمین نیب کو ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے امتیازی سلوک کا تاثر ابھرے کیونکہ اس حوالے سے کئی بار تحفظات کا اظہار ہوچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اداروں میں ڈیل یا ڈھیل کا نظام کسی بھی شخص کے پاس نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کے شفاف نظام بنانے کی ضرورت ہے۔

سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹررفعت حسین کا کہنا تھا کہ ڈیل کا اختیار قانون کے تحت نیب کے پاس موجود ہے اور وہ راستہ پلی بارگین کا ہے۔ چیئرمین نیب کو بیانات میں پھر بھی یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ہم ڈھیل دے رہے ہیں۔

سینیئر تجزیہ کار ناصر بیگ چغتائی نے کہا کہ چیئرمین نیب نے ڈھیل دی ہے اور اب اس کا اعتراف بھی کرلیا ہے۔ انہوں نے ہی کہا تھا کہ اگر وزراء کے خلاف کارروائی کی تو اس سے حکومت دس منٹ میں گر جائے گی، اس بات سے یہی تاثر ملتا ہے کہ وہ کیسوں کا فیصلہ میرٹ پر نہیں کرتے ہیں۔

تجزیہ کار نسیم صدیقی کا کہنا تھا کہ نیب کی جانب سے ڈیل اور ڈھیل دونوں ہی دی جاتی رہی ہیں۔ لیکن چیئرمین نیب پر پیپلزپارٹی اور ن لیگ کا اعتراض نہیں بنتا کیونکہ ان کا انتخاب انہوں نے ہی کیا تھا۔

امریکہ کے کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دینے سے متعلق سوال کے جواب میں ڈاکٹررفعت حسین نے کہا کہ امریکہ کا اس طرح کھل کر کہنا پاکستان کے موقف کی حمایت ہے، پاکستان کو آگے بڑھ کر مطالبہ کرنا چاہیے کہ اقوام متحدہ بھی اپنا کردار ادا کرے۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفی نے کہا کہ امریکہ کے بیانات میں تضاد موجود ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کو اس بات سے فائدہ اٹھانا چاہیے اورامریکہ سے درخواست کرنی چاہیے کہ یہی بات اقوام متحدہ میں بھی کرے۔

ناصربیگ چغتائی نے کہا کہ ایلس ویلز نے صورتحال کے حوالے سے بھی جوبیان دیا ہے وہ پاکستان کے موقف کے قریب ہے، ہمیں اس معاملے کو دنیا کے سامنے اٹھانا چاہیے اور مزید ممالک کو قائل کرنا چاہیے۔

مشرف زیدی نے کہا کہ امریکہ کا بیان اہم ہے لیکن ایلس ویلز نے کمیٹی میں ایسے بات کی جیسے وہ بھارت کی نمائندگی کررہی تھیں۔ پاکستان کو اندرونی طور پر منظم ہونا ہوگا تاکہ دنیا توجہ سے ہماری بات سنے۔

نسیم صدیقی کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے پاس یہ معاملہ پہلے ہی ستر سال سے ہے اگر اب بھی وہاں اٹھالیا تو حل نہیں ہوگا۔ ہمیں اہم ممالک کو قائل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈالیں۔


متعلقہ خبریں