دوسرے ممالک سے باہمی قانونی تعاون مانگیں تو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے،سپیشل سیکرٹری داخلہ

صدارتی انتخاب

اسلام آباد: سپیشل سیکرٹری داخلہ وحید الدین نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بتایا کہ دوسرے ممالک سے باہمی قانونی تعاون مانگیں تو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دیگر ممالک کہتے ہیں کہ آپکی باہمی قانونی معاونت کی کوئی اتھارٹی نہیں۔

راجہ خرم شہزاد نواز کی زیرصدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس جمعرات کے روز پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں باہمی قانونی معاونت کا بل 2019  پرغور کیا گیا۔

سپیشل سیکرٹری وحید الدین نے اجلاس کو بتایا کہ ہم نے سیکرٹری داخلہ کی سربراہی میں ایک اتھارٹی قائم کرنے کی تجویز دی ہے۔ نئے بل میں باہمی قانونی معاونت کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اتھارٹی قائم کرنے کی تجویز ہے۔

مجوزہ بل پر بات کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی قادر پٹیل نے کہا کہ تحقیقات کے دوران خفیہ معلومات حاصل کرنے کی شق بڑی مبہم ہے۔

سینئر جوائنٹ سیکرٹری داخلہ اصغر علی نے کہا کہ اس حوالے سے نیب چئیرمین کے پاس بھی یہ پاورز ہیں۔ قادر پٹیل نے کہا کہ نیب قوانین پر بھی غور کیا جارہا ہے۔ نیب سر سے پاؤں تک آزاد ہے۔ اس قانون کا ازسرنو جائزہ لینا چاہئے۔

اسپیشل سیکرٹری نے کہا کہ فنانشل ایکشن  ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی شرائط پوری کرنے کے لیے بھی اس قانون کی ضرورت ہے۔
قائمہ کمیٹی نےباہمی قانونی مشاورت کا بل کمیٹی کے آئندہ اجلاس تک موخر کردیا۔

قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے رکن قومی اسمبلی  مولانا عبدالکبر چترالی کی طرف سے کریمینل لا میں ترمیم کا بل مجریہ 2019 پر بھی غور کیا۔
مولانا چترالی نے کہا کہ فحش البم اور مواد تقسیم یا فروخت سے جذبات مجروح ہوجاتے ہیں۔ فحاشی و عریانی کی سزا تین ماہ سے بڑھا کر دوسال کی جائے اور جرمانے کی رقم 2 لاکھ کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسداد منشیات کو آمان پراجیکٹ پر بریفنگ

انہوں نے کہا کہ ہم اسلامی قوانین پر عمل کریں تو قانون بنانے کی ضرورت نہ پڑے۔ ہمارے ہاں قوانین پر عملدرآمد موجود نہیں۔

سپیشل سیکرٹری داخلہ نے اجلاس کو بتایا کہ ہمیں اس بل پر اعتراض نہیں، صوبوں سے اس بارے میں رائے مانگی گئی ہے۔ رکن قومی اسمبلی مولانا عصمت اللہ  نے کہا کہ فحاشی و عریانی کسے کہتے ہیں اس کی تعریف کی جانا چاہیے۔

قائمہ کمیٹی نے مولانا عبدالکبر چترالی کا مجوزہ بل آئندہ اجلاس تک موخر کر دیا گیا۔

وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے اجلاس کو بتایا کہ اسلام آباد  اور لاہور  میں سیکٹر کے سیکٹر دو بار بیچے گئے۔ وفاقی ترقیاتی ادارہ (سی ڈی اے) کا ماسٹر پلان ساٹھ کی دہائی میں بنا، آج تک ماسٹر پلان نہیں بدلا گیا۔

انہوں نے کہا کہ جو ملک کے ساتھ ہوا وہی آج تک سی ڈی اے کے ساتھ ہوا۔ حکومت نے سی ڈی اے کا ڈھانچہ بدلنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔

وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے کہا کہ ماہرین کو بورڈ میں شامل کیا جائے گا جس کے ماتحت سی ڈی اے کام کرے گا۔ سی ڈی اے واحد ادارہ ہے جو اپنی زمینیں بیچ کر تنخواہیں دے رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک بورڈ کے زریعے تمام سیکٹرز میں کھوکھے بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم نے تمام کھوکھوں کے لیے ایک ڈیزائن تیار کیا ہے۔


متعلقہ خبریں