کسی شخص کو عدالت  میں پیش کیے بغیر تین ماہ سے زائد نظر بند نہیں رکھا جاسکتا،سپریم کورٹ

ڈینیل پرل قتل کیس:ملزمان کی رہائی روکنے کے حکم میں توسیع کی استدعا مسترد

فائل فوٹو


اسلام آباد:سپریم کورٹ نے فاٹا ایکٹ  2019 اور پاٹا ایکٹ 2018 مسترد کرنے کے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف حکومت کی اپیل پرمعاملے کی سماعت کیلئے لارجر بنچ بنانے کا حکم دے دیا۔

عدالت عظمی  نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے پر 13 نومبر تک حکم امتناع بھی جاری کر دیا۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ  نے ریمارکس دیے کہ  امریکہ نے گوانتاناموبے جیل اپنی حدود سے باہر بنائی،مگر ہم اپنی ہی حدود میں لوگوں کو نظربند کرنا چاہتے ہیں۔

اٹارنی جنرل انورمنصورخان نے کہا کہ آرٹیکل 245 سیکشن تین کے تحت پشاور ہائیکورٹ کو یہ کیس سننے کا اختیار ہی نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ  کسی شخص کو عدالت  میں پیش کیے بغیر تین ماہ سے زائد نظر بند نہیں رکھا جاسکتا۔ کیا آپ پاکستان میں گوانتاناموبے بنانا چاہتے ہیں؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کے پی ایکشنز آرڈیننس 2019 میں پاکستان پینل کوڈ کے تحت سزائیں دی جاتی ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کہ کیا ایسے مجرموں کو آپ 15 سال تک نظر بند رکھ سکتے ہیں؟ یہ بہت سنجیدہ مسئلہ ہے کیا کسی کو جرم کے ارادے پر گرفتار کیا جاسکتا ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ نظر بندی مراکز کے قیام کے بعد دہشت گردی میں کمی ہوئی۔

اس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس معاملے کی وضاحت کیلئے لارجر بینچ تشکیل دے دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: خیبرپختونخوا ایکشن اینڈ ایڈ سول پاور آرڈیننس غیر آئینی قرار

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کے پی کی متعلقہ درخواستیں لارجر بنچ کے سامنے پیش کرنے کا حکم دے دیا ۔ کیس کی سماعت 13 نومبر تک ملتوی کر دی گئی ۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔


متعلقہ خبریں