کرتارپور راہداری کی کہانی ڈاکٹر محمد فیصل کی زبانی

یہ دنیا کا سب سے بڑا گردوارا ہے


اسلام آباد: وزارت خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا ہے کہ کرتارپور راہداری منصوبے پر اربوں روپے لاگت آئی ہے اور اسے فعال ہونے میں گیارہ ماہ کا قلیل عرصہ لگا ہے۔

ہم نیوز کے مارننگ شو ’صبح سے آگے‘ میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا تھا کہ کرتارپور راہداری منصوبے کا اتنی جلدی تکمیل کے قریب پہنچنا ناممکنات میں سے ہے، پرائیویٹ فرمز کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کی تکمیل میں 3 سے 5 سال لگیں گے مگر فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) نے اسے 10 سے 11 ماہ میں مکمل کرنے کے قریب پہنچا دیا۔

وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ کرتارپور راہداری کو جلد از جلد فعال کرنے کے لیے پاکستان کے ہر ادارے نے انتہائی خلوص اور مستعدی سے کام کیا ہے چاہے وہ وزیراعظم ہوں، وزیر خارجہ یا اس پراجیکٹ سے وابستہ باقی افراد۔

میزبان شفا یوسفزئی کے اس سوال پر کہ کن مراحل سے گزر کر یہ منصوبہ تکمیل کے آخری مراحل تک پہنچا ڈاکٹر محمد فیصل نے بتایا کہ 28 نومبر 2018 کو وزیراعظم عمران خان نے کرتارپور راہداری منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا اور اب 9 نومبر 2019 کو اس کا باقاعدہ افتتاح کر دیا جائے گا۔

ہندوستان کے ساتھ معاملات طے کرنا بہت مشکل ہوتا ہے

ڈاکٹر فیصل نے بتایا کہ ہندوستان کے ساتھ تمام معاملات طے کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور ایسا بہت ہی کم ہوا ہے کہ ان کے ساتھ معاملات دستخط بندی تک پہنچے ہوں۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھے جانے کے بعد ان کی ہدایات کے مطابق بھارت کے ساتھ راہداری کے لیے مذاکرات ہوئے، مذاکرات تین ادوار پر مشتمل تھے جن میں سے دو بھارت جب کہ ایک پاکستان میں منعقد ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ادوار اتار چڑھاؤ سے بھرپور تھے، سوموار کو بھارت کی جانب سے منصوبے کی منظوری دی گئی اور اسی رات سیکرٹری خارجہ نے وزیر خارجہ کو اس اہم پیشرفت سے آگاہ کیا اور اگلی صبح کابینہ کے ایجنڈے میں اس معاملے کو شامل کرا کے منظور کرا لیا گیا اور پھرمعاہدے  دستخط کر دیے گئے۔

مذاکرات کے دوران درپیش مشکلات

مذاکرات کے دوران کن معاملات کو حل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ 20 ڈالر کا معاملہ جو کہ سروس چارجز ہیں اس پر تھوڑا مسئلہ رہا، اس کے علاوہ بھارتی حکام پاسپورٹ چیک کیے جانے پر بھی اعتراض تھا جس پر ہمارا موقف تھا کہ کوئی شناخت تو چاہیے ہو گی کہ کون آرہا ہے اور کون جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا ہم نے بھارتی حکام کو باور کرایا کہ اس عمل کے لیے ویزہ درکار نہیں ہو گا۔

وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اس پراجیکٹ میں بھارتی حکومت کی بھی دلچسپی تھی کیونکہ دراصل یہ سکھ کمیونٹی کا انٹرسٹ ہے اور یہ کمیونٹی اندرون و بیرون ملک خاصہ اثرورسوخ رکھتی ہے۔

ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا تھا کہ منصوبے پر کام بہت تیزی سے جاری ہے گزشتہ سال اس مقام پر صرف ایک چھوٹا سا گردوارا تھا اور اس کے اردگرد ٹینٹ لگا کر سنگ بنیاد رکھا گیا تھا اب وہاں ایک بڑا کمپلیکس بن گیا ہے، ساڑھے چار کلومیٹر کی سڑک ہے جو بھارت کو جاتی ہے۔

دنیا کا سب سے بڑا گردوارا

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ وہاں ریسپشن بھی بنائی گئی ہے، یہ دنیا کا سب سے بڑا گردوارا ہے، 42 ایکڑ رقبے پر صرف گردوارا ہے اس کے باہر کا علاقہ بھی قریباً 4 یا 5 سو ایکڑ سے زیادہ ہے جو کہ منصوبے میں شامل ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سکھوں کی مقدس جگہ جہاں بابا گرونانک خود کاشتکاری کرتے تھے محفوظ کر لی گئی ہے، اس کے علاوہ وہاں انتظار گاہ اور شاپنگ ایریا بھی بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں بسوں کے رکنے کی جگہ بھی ہے ساتھ ہی ایمرجنسی اور میڈیکل سروسز سنٹرز اور کلینکس بھی بنائے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ دنیا بھر میں پاکستان کے مثبت تاثر کو اجاگر کرے گا، ساتھ ہی سیاحت کے فروغ کا باعث بھی بنے گا۔


متعلقہ خبریں