العزیزیہ ریفرنس میں نوازشریف کی عبوری ضمانت منظور



اسلام آباد: ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی عبوری ضمانت منظور کر لی ہے۔

عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس محسن اخترکیانی نے شہبازشریف کی درخواست پر فیصلہ سنایا۔

عدالت نے نوازشریف کی ضمانت 20 لاکھ روپے کے مچلکوں کےعوض 29 اکتوبر تک منظور کی ہے۔

ہائی کورٹ نے سزا معطلی کی درخواست منگل تک ملتوی کر رکھی تھی تاہم شہبازشریف نے ایک متفرق درخواست جمع کرائی جس میں موقف اپنایا گیا کہ سابق وزیراعظم شدید علیل ہیں۔

متفرق درخواست میں استدعا کی گئی کہ نوازشریف کی طبی بنیادوں سزامعطلی کی درخواست پر آج ہی سماعت کی جائے۔

ہائی کورٹ نے سزا معطلی کی درخواست کے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بتائیں وہ اس کی مخالفت کریں گے یا نہیں؟ اور مخالفت کی صورت میں حلفیہ بیان دیں کہ وہ سابق وزیراعظم کی صحت کے ذمہ دار ہوں گے۔

عدالت نے وزیراعظم، وزیراعلی پنجاب اور چئیرمین نیب اور وزارت داخلہ کو نمائندہ مقرر کر کے عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس نے اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے ضمانت کےمتعلق فیصلہ حکومت نے کرنا ہے، طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست عدالت نہیں آنی چاہئے، یہ حکومت کا اختیار ہے۔

دو رکنی بینچ کے سربراہ  نے وکیل نیب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ درخواست ضمانت کی مخالفت کریں یا بیان حلفی کی صورت میں ذمہ داری قبول کریں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے کندھے پر رکحھ کر بندوق نہ چلائیں، ہاں یا ناں میں جواب دیں۔

سیکریٹری داخلہ پنجاب نے جواب دیا کہ ہم مریض کی صحت کے بارے میں کوئی ذمہ داری نہیں لے سکتے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت بھی ذمہ داری نہیں لے سکتی۔

ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ انسانی بنیادوں پر ہمیں نواز شریف کی ضمانت کی درخواست پر کوئی اعتراض نہیں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہم وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کو ہدایات جاری کر رہے ہیں۔ وزیراعلی پنجاب، وزیراعظم عمران خان اور چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال اس معاملے پر فیصلہ کریں۔

عدالت نے تمام فریقین کو مشاورت کے لیے تین بار وقت دیا اور مقدمے سماعت چھ گھنٹے سے زائد جاری رہی۔

العزیزیہ ریفرنس میں سزا کب ہوئی؟

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نوازشریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 24 دسمبر 2018 کو سات برس قید، دس سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدے پر فائز ہونے پر پابندی، ان کے نام تمام جائیداد ضبط کرنے اور تقریباً پونے چار ارب روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کب ہوئی؟

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے چھ جولائی 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس میں نوازشریف کو 10 سال قید بامشقت اور ایک سال اضافی قید کی سزا سنائی تھی۔ مریم نواز کو آٹھ اور ایک سال اضافی قید کی سزا جب کہ کیپٹن صفدر کو اعانت جرم میں ایک سال قید اورجرمانوں کی سزا سنائی تھی۔

بعد ازاں نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا، جہاں 19 ستمبر کو ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کی جانب سے سزا دینے کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا۔

ریفرنس کیوں دائر ہوئے؟

پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کئے تھے۔

لندن فلیٹس ریفرنس میں  سابق وزیر اعظم نواز شریف، حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو ملزمان ٹھہرایا گیا تھا۔ العزیزیہ اسٹیل ملز جدہ اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے بیٹے نامزد ملزمان  تھے۔

حسن نواز اور حسین نواز کو عدالت میں پیش نہ ہونے کی وجہ سے مفرور قرار دیا جا چکا ہے۔ عدالت نے ان کے مقدمات علیحدہ کر دیے تھے۔

العزیزیہ میں استغاثہ کے 22 اور فلیگ شپ ریفرنس میں 16 گواہان نے بیانات قلمبند کروائے تھے۔ سابق وزیراعظم نے فلیگ شپ میں 140 اور العزیزیہ میں 152 سوالوں کے جواب عدالت میں جمع کرائے تھے۔

ایون فیلڈ ریفرنس(لندن فلیٹ) کیس میں عدالت نے ملزمان کو سوالنامہ دیا تھا جس میں 127 سوالات شامل تھے۔


متعلقہ خبریں