عراق میں حکومت مخالف پر تشدد مظاہرے پھر شروع


عراق  کے مختلف شہروں بشمول بغداد میں وزیر اعظم عادل عبدالمہدی کی حکومت کی مبینہ بدعنوانی اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ پھر شروع ہوگیا۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق گزشتہ روز سیکیورٹی فورسز کی جانب سے فائرنگ سے 40 افراد کی ہلاکت اور دو ہزار سے زائد زخمی  ہونے کے واقعے کے بعد مظاہروں کا سلسلہ پھر شروع ہوگیا۔

ہفتے کے روز بغداد اور دیگر شہروں میں ہزاروں افراد عراقی جھنڈے ہاتھ میں لیے سڑکوں پر نکل آئے اور کئی جگہوں میں سیکیورٹی اہلکاروں اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ مظاہرین نے وزیراعظم اورمذہبی رہنماؤں کی جانب سے پرامن رہنے کی اپیلیں مسترد کردیں۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عادل عبدالمہدی ملک سے بے روزگاری، ناقص عوامی سہولیات اور بدعنوانی کا خاتمہ کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق عراق میں پرتشدد مظاہروں سے اب تک ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 150 ہوگئی ہے۔

تقریباً 200 مظاہرین نے جمعہ اور ہفتے کی شب دارالحکومت بغداد کے تحریر اسکوائر میں ڈیرے ڈال کر گزشتہ روز ہلاک افراد کے لیے فاتحہ خوانی کی۔ جمعہ کے روز سیکیورٹی افراد کی فائرنگ سے بغداد میں آٹھ افراد ہلاک جبکہ کئی زخمی ہوگئے تھے۔

دریں اثناء مظاہرین کے مطالبات پر تبادلہ خیال کے لیے ایراقی پارلیمنٹ کا ہنگامی اجلاس ہفتے کے روز بلایا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عراق: پر تشدد مظاہروں کے بعد بغداد میں غیر معینہ مدت کا کرفیو نافذ

بغدا میں مظاہرے میں شامل ایک نوجوان نے نام نہ ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت پچھلے 15 سال سے ہمارے وسائل چوری کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سابق مطلق العنان صدام حسین چلا گیا لیکن ایک ہزار صدام  بغداد کے گرین زون میں چھپے ہوئے ہیں۔

عراقی وزارت داخلہ نے اپنے ایک بیان میں سیکیورٹی فرسز کی جانب سے دکھائی جانے والی تحمل کی تعریف کرتے ہوئے کہا انہوں نے مظاہرین کی بھر پور حفاظت کی۔ وزارت داخلہ نے مزید بتایا کہ سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین کے خلاف آتشیں اسلحہ یا ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال سے گریز کیا۔

حکومت نے عراق کے بنیادی طور پر شیعہ آبادی والے جنوبی صوبوں میں  مظاہرین اور ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کے درمیان جھڑپوں اور ہلاکتوں کے بعد کرفیو لگائی ہے۔


متعلقہ خبریں