صحافت پر پابندی لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے، سینئر صحافی


اسلام آباد: سینئر صحافی اور تجزیہ کار نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے صحافت پر پابندیاں لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو آئین کی خلاف ورزی ہے۔

ہم نیوز کے پروگرام بریکنگ پوائنٹ ود مالک میں سینئر صحافی تجزیہ کار ارشد شریف نے کہا کہ میڈیا پر آہستہ آہستہ پابندیاں لگائی جا رہی ہیں اور کوشش کی جا رہی ہے کہ کوئی نہ بولے۔ پیمرا کی جانب سے جاری کیا گیا خط قابل تشویش ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک ایک کر کے میڈیا پر پابندیاں لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اب لگتا ہے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی جائے گی۔ میڈیا صرف لوگوں کو اور حکومت کو چیزوں سے متعلق آگاہ کرتا ہے کہ یہ معاملات کس طرح سے ہو رہے ہیں اور یہ تمام چیزیں صرف معلومات کے لیے ہوتی ہیں۔

ارشد شریف نے کہا کہ وزیر اعظم نے سینئر صحافیوں کے ساتھ ملاقات میں کہا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کی لائیو کوریج پر کوئی پابندی نہیں لیکن اس کے بعد بھی جن چینلز نے مولانا فضل الرحمان کے ایونٹ کی کوریج کی کوشش کی انہیں پیغامات بھیج دیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے مشیر جو انہیں کہتے ہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں انہوں نے ہی اصل پی ٹی آئی کو سائیڈ لائن کر دیا ہے اور وہ عمران کو غلط رہنمائی کر رہے ہیں۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضرار کھوڑو نے کہا کہ ایسا لگ رہا ہے جس کا اپنے محکمے میں جو چل رہا ہے وہ ویسا ہی کام کر رہا ہے۔ موجودہ حکومت کو دیکھ کر لگتا ہے جو بھی ان کے دل میں آتا ہے وہ کر دیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے ایک کے بعد ایک بے وقوفی کی جا رہی ہے اور پھر اپنے ہی فیصلے واپس لے لیے جاتے ہیں۔

ضرار کھوڑو نے کہا کہ جب اوپر سے کمانڈ اینڈ کنٹرول کمزور ہو تو نیچے پھر سب اپنی مرضی ہی چلاتے ہیں اور یہ سب اس حکومت میں ہو رہا ہے۔

ماہر قانون سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پیمرا کا خط آزادی صحافت پر حملہ ہے اور صحافت پر پابندی کے مترادف ہے، یہ کسی بھی آئین کے مطابق نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ رپورٹنگ اور رائے دینے میں فرق ہے۔ رائے دینا تو ہر انسان کا حق ہے۔ صحافی ہمیشہ ہی خوف میں رہیں گے کہ کب انہیں نوٹس آئے گا اور وہ معطل کر دیے جائیں گے۔ صحافیوں کو اس معاملے پر کھڑا ہونا پڑے گا یہ فسطائیت سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پیمرا کی ہدایات جمہوریت کے خلاف ہیں۔ ہر شہری کا حق ہے کہ وہ اپنے رائے پر بات کرے۔ پیمرا نے خود ہی اپنے آپ کو جیوری مقرر کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صحافی اپنی رائے رکھ سکتا ہے اور اظہار کر سکتا ہے جبکہ پیمرا کے ذریعے کے صحافیوں کو دھمکایا جا رہا ہے۔ صحافیوں کو عدالت سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

سینئر صحافی تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ سارے صحافی پیمرا کی ان ہدایات کے خلاف اپنا ایک متفقہ بیان جاری کریں اور وزیر اعظم سے رابطہ کر کے انہیں پیمرا کی یہ ہدایات ختم کرنے کی درخواست کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ ایسا لگ رہا ہے ٹی وی چینلز پر سیکشن 144 لگا دی گئی ہے۔ آہستہ آہستہ میڈیا پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اب پیمرا کا خط براہ راست میڈیا پر حملہ ہے۔

مظہر عباس نے کہا کہ پیمرا کے قانون میں یہ کہیں نہیں ہے کہ کوئی اینکر کسی دوسرے چینل پر نہیں جا سکتا لیکن اب یہاں نظر آ رہا ہے کہ صحافیوں کو بولنے سے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب پیمرا کے قانون کو چیلنج کرنے اور بدلنے کی ضرورت ہے۔ پیمرا کو استعمال کر کے میڈیا پر قدغن لگائی جا رہی ہیں۔

سینئر صحافی نے کہا کہ اگر وزیر اعظم، معاون خصوصی اور چیئرمین پیمرا کہتے ہیں ہم میڈیا پر پابندیاں نہیں لگا رہے تو پھر یہ کون پابندیاں لگا رہا ہے۔

محمد مالک نے کہا کہ دنیا کی تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں ہے کہ 90 لاکھ لوگوں کو مسلمان ہونے کی وجہ سے جیل میں رکھا گیا ہے۔ شاید کبھی دنیا کے ضمیر جاگیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اگر میڈیا کو خاموش کیا جائے گا تو اصل میں عوام کو خاموش کیا جائے گا تاہم اس سے پہلے بھی میڈیا پر پابندیاں لگانے کی کوشش کی گئی ہیں اور اب بھی کی جا رہی ہے لیکن آج کے دور میں ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔


متعلقہ خبریں