مولانا کیخلاف بغاوت کی کارروائی: تقاریر کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کی ہدایت

فائل فوٹو


لاہور: ہائی کورٹ نے ہدایت کی ہے کہ مولانا فضل الرحمان کیخلاف بغاوت کی کارروائی کیلئے دائر درخواست میں جے یو آئی سربراہ کی تقاریر کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔

عدالت عالیہ کے جج جسٹس محمد امیر بھٹی نے ایڈووکیٹ ندیم سرور کی درخواست پر سماعت کی جس میں وفاقی حکومت، مولانا فضل الرحمان، پیمرا اور الیکشن کمیشن کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواستگزار نے عدالتی حکم پر فضل الرحمن کی توہین آمیز تقاریر کا ٹرانسکرپٹ اور سی ڈیز پیش کیں۔

عدالت کے روبرو وفاقی حکومت کے وکیل اسرارالہی نے درخواست کی مخالفت کی اور یقین دہانی کرائی کہ قانون ہاتھ میں لینے پر وفاقی حکومت کاروائی کرے گی۔

وکیل استغاثہ ایڈووکیٹ ندیم سرور نے موقف اپنایا کہ مولانا فضل الرحمن الیکشن ہارنے کے بعد اور مدرسہ اصلاحات سے بچنے کے لیے دھرنا دے رہے ہیں۔ ایک آئینی حکومت کو 5 سال کی مدت پوری کیے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا۔

درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ آئینی طریقے سے ہٹ کر گورنمنٹ کو ہٹانا آئین کے آرٹیکل 2-Aاور 17 کی خلاف ورزی ہو گی۔

ایڈووکیٹ ندیم سرور نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن نے دھرنے کی حفاظت کے نام پر پرائیویٹ آرمی بنا لی ہے جو کہ غیر قانونی ہے،ان کو دھرنے سے روکا جائے کیوں کہ یہ آئین کے آرٹیکل 2a 9،15،16،19 کی خلاف ورزی ہے۔

درخواست کے متن میں شامل ہے کہ مولانا نے کہا آسیہ بی بی کا فیصلہ بیرونی دباو میں دیا گیا جو توہین عدالت ہے۔

عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوے اس نوعیت کی تمام درخواستوں کو یکجا کرکے لگانے کی ہدایت بھی کی ہے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے مولانا فضل الرحمان کیخلاف پابندی کی درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کر دی تھی۔

درخواست گزار نے استدعا کی تھی کہ مولانا فضل الرحمن پر اداروں کے خلاف تقریر کی وجہ سے پابندی لگائی جائے۔

جج نے ریمارکس دی تھے کہ ملک میں اظہار رائے کی آزادی ہونی چاہے۔ سوشل میڈیا کا دور ہے آپ کس کس کو روکیں گے، ہمارے اپنے کردار ایسے ہونے چاہئیں کہ کوئی ہمارے بارے میں ایسی بات نہ کرے۔


متعلقہ خبریں