انصارالاسلام پرپابندی، وزارت داخلہ سے جواب طلب

دھرنے میں شرکت پر انصارالاسلام کے چیف نے معافی مانگ لی

فوٹو: فائل


اسلام آباد: ہائی کورٹ نے جمیعت علمائے اسلام کی ذیلی تنظیم انصارالاسلام پر پابندی کے کیس میں وزارت داخلہ کے نمائندے کو طلب کر لیا ہے۔

عدالت عالیہ کے چیف جسٹس  اطہر من اللہ نے  کامران مرتضی کی درخواست پر سماعت کی جس میں سیکشن آفیسر وزارت داخلہ، چاروں صوبائی چیف سیکریٹریز اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

وکیل درخواست گزار کامران مرتضیٰ نے سماعت کے دوران موقف اپنایا کہ جمعیت علمائے اسلام سیاسی جماعت کے طور پر الیکش کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے اگر تو یہ ممبر ہیں سیاسی جماعت کے تو پھر تو یہ نوٹیفکیشن ہی غیر موثر ہے۔ انہوں نے درخواستگزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ’ کیا وفاقی حکومت نے آپ کو سنا بھی نہیں’۔

کامران مرتضی جواب دیا وزارت داخلہ نے ہمیں سنے بغیر پابندی لگا دی۔ وکیل درخواستگزار کامران مرتضیٰ نے موقف اپنایا یہ پرائیویٹ ملیشیا نہیں جمیعت علماء اسلام کا حصہ ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے پرائیویٹ ملیشیا تو نہیں ڈنڈے تو ہیں۔ کامران مرتضیٰ نے جواب دیا کہ ڈنڈے تو جھنڈوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔

جج نے ریمارکس دیے’میری رائے کے مطابق تو یہ نوٹیفکیشن ہی غیر موثر ہے، جب تنظیم کا باقاعدہ وجود ہی نہیں تو اس پر پابندی کیسے لگ سکتی ہے، خاکی وردی کی بجائے سفید پہن لیں تو اس پھر کیا ہو گا، کم از کم آپ کو حکومت پوچھ تو لیتی کہ یہ تنظیم کیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے’یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ایک چیز موجود ہی نہیں اور اس پر پابندی لگا دی گئی ہے’۔

عدالت نے حکم دیا کہ جمیعت علماء اسلام کو سنے بغیر وزارت داخلہ نے پابندی لگائی، متعلقہ حکام عدالت کو  مطمئن کریں کہ کسی کو سنے بغیر کیسے پابندی لگا دی۔ ہائی کورٹ نے پابندی کیخلاف درخواست پر سماعت 29 اکتوبر تک ملتوی کردی ہے۔


متعلقہ خبریں