سعودی ولی عہد کے ترکی اور ایران مخالف بیان پر ہنگامہ


استنبول/ قاہرہ: ترکی میں سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے سعودی ولی عہد  محمد بن سلمان کے اردوان مخالف بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔

سعودی ولی عہد نے مصری اخبار’الشروق ‘ کو دیے گئے انٹرویو میں انقرہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ” ترکی برائیوں کی اس تکون کا حصہ ہے جس میں ایران اور شدت پسند گروپس شامل ہیں۔”

سعودی شہزادے کے بیان پر ترکی کی عوام نے سوشل میڈیا پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پراس کی شدید مذمت کی جارہی ہے۔

محمد بن سلمان نے مصری اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ ترکی ایک صدی قبل خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد ختم ہونے والی”خلافت” کو بحال کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

سعودی شہزادے نے مصری آمر السیسی کے ہاتھوں ختم کی گئی جمہوری حکومت کی پشت پر موجود اخوان المسلمون کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے دعوی کیا کہ مسل برادرہڈ یا اخوان المسلمون خطے میں جمہوریت کو نقصان پہنچا رہی ہے اور ترکی اس کا حصہ ہے۔

سعودی شہزادے نے کہا تھا کہ ” برائیوں کا تکون  ترکی، ایران اور شدت پسند گروپوں پر مشتمل ہے۔”

ایران کی جانب سے سعودی ولی عہد کے بیان پر تاحال باقاعدہ ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

سعودی سفارت خانے کی جانب سے وضاحتی بیان میں کہا گیا ہے کہ محمد بن سلمان کے بیان کو حقائق کے برعکس پیش کیا گیا۔ شہزادے نے اخوان المسلمون اور دیگرانتہا پسند گروہوں کو برائی کے تکون کا حصہ قرار دیا تھا۔

گذشتہ برس سعودی ولی عہد نے غیرملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایران کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور ایرانی سپریم لیڈر کو” نیا ہٹلر” قرار دیا تھا۔

ولی عہد نے قطر اور سعودی عرب کے تعلقات پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ  دونوں مملک کے درمیان جاری تنازعہ طویل المدت ہوسکتا ہے۔ انہوں نے اسے 60 سالہ امریکا کیوبا تنازعے سے تشبیح دی تاہم ان کا کہنا تھا کہ ”عرب لیگ اجلاس” میں قطر کی شرکت ممنوع نہیں۔

گذشتہ برس جون میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرین نے قطر سے سفارتی اور تجارتی تعلقات معطل کردیئے تھے۔

مسلسل مغربی دباؤ کے باعث سعودی حکومت اپنی پالیسی میں ایسی تبدیلیاں لا رہی ہے جسے مسلم دنیا میں ہی نہیں بلکہ سعودی عرب میں بھی انتہائی تعجب سے دیکھا جاتا ہے۔ سعودی ولی عہد کا حالیہ بیان بھی اسی تناظر میں سمجھا جا رہا ہے۔

سعودی ولی عہد اپنے پہلے سرکاری دورے پر برطانیہ پہنچے ہیں۔ انہوں نے بکنگھم پیلس میں ملکہ برطانیہ سے ملاقات کی۔ جب کہ دارالعوام میں اپوزیشن نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔


متعلقہ خبریں