آزادی مارچ کے بھرپور استقبال کا اعلان، شہباز شریف بھی شریک ہوں گے

آزادی مارچ کے بھرپور استقبال کا اعلان، شہباز شریف بھی شریک ہوں گے

اسلام آباد: مسلم لیگ ن کے رہنما ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے جلسہ میں شہباز شریف کی شرکت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آزادی مارچ کا اسلام آباد داخلے پر بھرپور استقبال کیا جائے گا۔

ہم نیوز کے پروگرام ندیم ملک لائیو میں بات کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما زر تاج گل نے کہا کہ آزادی مارچ کا بنیادی مقصد تو معلوم ہی نہیں ہے اور بظاہر فضل الرحمان اپنے مفاد کے لیے ہی نکلے ہیں کیونکہ وہ پہلی بار اسمبلی سے باہر ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ناکامی کی صورت میں فضل الرحمان کو تو نہیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو دھچکا لگے گا، فضل الرحمان کا تو ووٹ بینک ہی دو فیصد ہے لیکن انہوں نے کشمیر کاز کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے اور بھارتی میڈیا مولانا فضل الرحمان کو بہت زیادہ کوریج دے رہے ہیں۔

رہنما تحریک انصاف نے کہا کہ حکومت نے حزب اختلاف کو مارچ یا احتجاج سے نہیں روکا اور وہ آ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کو سپورٹ کر رہی ہے۔ دو فیصد کے نمائندگی رکھنے والوں کو میڈیا بھرپور کوریج دے رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لاہور میں مسلم لیگ ن کی لیڈر شپ مکمل طور پر غائب تھے اور آزادی مارچ کا کسی نے بھی استقبال نہیں کیا۔ حزب اختلاف کا آزادی مارچ مکمل طور پر ناکام ہو گیا ہے۔

زرتاج گل نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کی سیاست ختم ہو گئی ہے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ابو بچاؤ اور کرپشن بچاؤ کے لیے حزب اختلاف نکلی ہوئی ہے۔ سندھ میں صحت کے بے انتہا مسائل موجود ہیں جو پیپلز پارٹی قابو کرنے میں ہی ناکام ہو گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے پہلے سال 35 فیصد مہنگائی بڑھی تھی لیکن یہ ان کو معلوم نہیں ہے۔ کراچی دنیا کے گندے ترین شہروں میں شامل ہو گیا ہے وہاں صفائی کا کوئی انتظام ہی نہیں ہے۔

رہنما تحریک انصاف نے کہا کہ بھارت میں فضائی آلودگی 80 فیصد اور پاکستان میں 20 فیصد ہے۔ بھارت کی وجہ سے پاکستان اس کا شکار ہو رہا ہے جس کا ہم بھارت کو بھی بتا چکے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا نے کہا کہ کوئی بھی تحریک مکمل ناکام نہیں ہوتی وہ اپنا کچھ نہ کچھ اثر ضرور چھوڑتی ہے چاہے اس کا نتیجہ فوراً نکلے یا بعد میں نکلے۔ سینیٹ میں سب نے دیکھا کہ ووٹ کس طرح سے چوری ہوئے اور اکثریت اقلیت میں تبدیل ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ آزادی مارچ کراچی سے شروع ہوا اور پورے سندھ سے ہوتا ہوا پنجاب میں داخل ہوا انہوں نے سندھ میں ایک گملہ بھی نہیں توڑا انتہائی پرامن مارچ ہے اور اعلان کیا گیا ہے کہ 18 سال سے بڑے بچے احتجاج میں شامل ہوں۔

شہلا رضا نے کہا کہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو اسلام آباد میں موجود ہیں اور جلسہ میں شرکت کا اعلان وہ خود کریں گے ان کے والد کی طبیعت انتہائی خراب ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کو تو کچھ معلوم ہی نہیں ہے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے یہ نظام حکومت کون چلا رہا ہے ؟ مولانا فضل الرحمان نے خواتین کو جلسہ میں لانے سے منع کیا ہے تو اس لیے دیگر جماعتوں کی خواتین شریک نہیں ہوں گی۔

رہنما پیپلز پارٹی نے کہا کہ ملک میں مہنگائی کا طوفان کھڑا ہو چکا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت کے خلاف احتجاج کیوں ہو رہا ہے حکومت کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے آج حکومت تاجروں کے سامنے گھنٹے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی۔

انہوں نے کہا کہ حزب اختلاف ون پوائنٹ ایجنڈے مہنگائی کے خلاف متحد ہوئی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف الگ سے تحریک بھی چل رہی ہے۔تھر کے 71 فیصد لوگوں کو روزگار دے دیا گیا ہے اور سندھ کا ایک بھی منصوبہ بی آر ٹی جیسا نہیں ہے۔ ملک میں گندم کا فقدان ہے اور حکومت نے مفت میں افغانستان کو گندم دے دی۔

یہ بھی پڑھیں جڑواں شہروں میں جمعرات کو اسکولز بند رکھنے کا اعلان، میٹرو چلے گی

مسلم لیگ ن کے رہنما ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ آزادی مارچ میں شہباز شریف ضرور شریک ہوں گے اور روات میں بھی آزادی مارچ کے شرکا کا بھرپور استقبال کیا جائے گا جبکہ پنجاب بھر میں مسلم لیگ ن نے استقبالیہ کیمپ لگائے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی عوام نے تو تحریک انصاف کو 12 مہینے بھی برداشت نہیں کیا ہمارا تو وزیر اعظم تین بار آ چکا ہے اور آج بھی عوام ہمارے ساتھ کھڑی ہے۔ مذہبی کارڈ کو تو تحریک انصاف استعمال کر رہی ہے مولانا فضل الرحمان کا ایجنڈا تو سیاسی ہے۔

ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ لاہور میں فضل الرحمان کے مارچ کے ساتھ بھرپور تعاون کیا گیا اور میڈیا مکمل طور پر آزادی مارچ کو کوریج نہیں دے رہا۔

رہنما مسلم لیگ ن نے کہا کہ حکومت مارچ کے حوالے سے کسی غلط فہمی کا شکار تھی لیکن اب یہ مارچ کو دیکھ کر بدحواسی کا شکار ہو گئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان اپنے ہر خطاب میں دو باتیں کر رہے ہیں ایک دھاندلی زدہ حکومت اور دوسرا نئے انتخابات۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان تو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر انتہائی غیر پارلیمانی الفاظ استعمال کرتے تھے جو ہم میڈیا پر بیٹھ کر نہیں کر سکتے۔


متعلقہ خبریں