سوشل میڈیا جھوٹ زیادہ پھیلاتا ہے، تحقیق


واشنگٹن: امریکا میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ‘ ٹوئٹر’ پر غلط اور جھوٹی خبریں  70 فیصد  تیزی سے پھیلتی ہیں۔ جب کہ اس کے مقابلے میں درست اور سچی نیوز انتہائی سست رفتاری سے پروان چڑھتی ہیں۔

تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غلط اور حقائق کے برعکس خبروں کا پھیلاؤ خودکار ‘بوٹ اکاؤنٹس’ کے بجائے صارفین کا مرہون منت ہوتا ہے۔

امریکی یونیورسٹی ‘میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی’ (ایم آئی ٹی) کی میڈیا لیب میں اس حوالے سے ایک ریسرچ کی گئی۔

تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2006 سے 2017 کے درمیان ٹوئٹر پرایک لاکھ 26 ہزار جھوٹی نیوز شئیر کی گئی ہیں۔ صارفین کی اکثریت ان غلط خبروں کوبغیرتصدیق کے تیزی سے شئیر کرتی رہی۔

رپورٹ کے مطابق درست کے مقابلے میں غلط خبروں کو سوشل میڈیا پر خاصی شہرت ملتی ہے۔

امریکی قانون ساز اور بین الاقوامی تنظیمیں ٹوئٹر و فیس بک سمیت دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے بارے میں جانچ پڑتال کررہی ہیں، لیکن یہ اقدامات انٹرنیٹ پرغلط مواد کی اشاعت روکنے کے لیے ناکافی ہیں۔

واشنگٹن نے الزام لگایا کہ روس نے 2016 کے امریکی انتخابی عمل میں سوشل میڈیا کے ذریعے مداخلت اور دھاندلی کی۔

اعداد و شمار چیک کرنے والی چھ آزاد تنظیمیوں نے سوشل میڈیا کی ”نیوز اسٹوریز” کا جائزہ لیا۔ جس سے یہ بات سامنے آئی کہ انٹرنیٹ پرجھوٹی سیاسی خبریں تیزی کے ساتھ اور بڑے پیمانے پر پھیلتی ہیں۔

دہشت گردی، سیاحت، قدرتی آفات، سائنس اور کاروبار کی خبروں کے مقابلے میں سیاسی خبروں پر صارفین کا زیادہ ردعمل سامنے آتا ہے۔

تحقیق کے مطابق 2012 اور 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات کے دوران غلط سیاسی خبروں کی اشاعت میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔

ایم آئی ٹی کے ریسرچرز کے مطابق جھوٹی اور سچی خبریں شئیر کرنے میں ٹوئٹرز کے جعلی یا باٹس اکاؤٹنس کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ لیکن صارفین خود بھی بے بنیاد خبروں یا اطلاعات کے پھیلاؤ کے ذمےدار ہیں۔

ایم آئی ٹی میڈیا لیب کے محقق اور حالیہ مطالعے کے مرکزی مصنف ”سروش فوسوگھی” کا  کہنا ہے کہ ”غلط اور جھوٹی خبریں عوام کے لیے خاصی حیران کن ہوتی ہیں، اس لیے سوشل میڈیا صارفین انہیں زیادہ شئیر کرتے ہیں تاکہ لوگوں کی توجہ حاصل کی جاسکے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی توقع کے برعکس ایسی افوہ پھیلاتا ہے جو سب کے لیے حیران کن بات ہو تو ہر دوسرا انسان اسے لازمی آگے پہنچائے گا۔

محقیقین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی تحقیق کا مرکز ٹوئٹر ضرور ہے لیکن اس ریسرچ کے نتائج کا اطلا ق فیس بک سمیت  دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی ہوتا ہے۔

ٹوئٹر کی ترجمان نے تحقیق کے نتائج  پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے گذشتہ ہفتے ٹوئٹر کے چیف ایگزیکٹو آفیسر( سی ای او) جیک ڈورسری کی ان ٹویٹس کی جانب اشارہ کیا جس میں صارفین سے درخواست کی گئی تھی کہ ’شرافت و انسانیت کو موضوع بنایا جائے‘۔

تحقیق کے لئے ٹوئٹر نے بھی ایسا ڈیٹا فراہم کیا جس سے ریسرچ میں معاونت حاصل ہوئی۔

محققین کے لیے یہ بات حیران کن تھی کہ جعلی یا باٹس اکاؤٹنس کے مقابلے میں صارفین خود زیادہ غلط اورجھوٹی معلومات پھیلاتے ہیں۔

ریسرچرز کا کہنا تھا کہ اس تحقیق کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ”اب انٹرنیٹ پر غلط خبریں روکنے کے لیے لوگوں کی مدد کے راستے بھی تلاش کرنا ہوں گے۔”

تحقیقاتی ٹیم میں شامل ایک محقق ڈیب روائے کا کہنا تھا کہ ” ہمیں سچ سے محروم دنیا کو اپنا مستقبل بننے سے روکنا ہوگا۔”

حالیہ تحقیق کے نتائج حیران کن ہی نہیں بلکہ پریشانی کا باعث بھی ہیں کیوں کہ اس وقت سوشل میڈیا معلومات کی فراہمی کا سب سے آسان اور سستا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اگرغلط معلومات کی روک تھام کے لئے اقدامات نہ کئے گئے تو آئندہ لوگوں کے لیے جھوٹی اور سچی خبر میں فرق کرنا مشکل ہوجائے گا۔


متعلقہ خبریں