مشرقی غوطہ کی باہمت شامی خواتین


دمشق: شامی دارالحکومت دمشق کا مضافاتی علاقہ غوطہ اس وقت شدید جنگ کا مرکز ہے۔ یہاں کے مکین محصور ہیں، کھانے پینے کی اشیاء کا حصول  مشکل بن چکا ہے۔ اس علاقے میں پھنسے ہوئے افراد باغیوں اور حکومت کی بمباری کے خوف سے تہہ خانوں یا شیلٹرز میں زندگی گزار رہے ہیں۔

اس گھمبیر صورتحال میں شامی باالخصوص غوطہ کی خواتین اہم کردار ادا کررہی ہیں۔

” امہ دیب”،”لیلیٰ بقری” اور”نيفين ہواری” انہی خواتین میں سے ہیں۔ اپنے حالات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس مشکل وقت میں خواتین کس طرح جنگ زدہ علاقے میں لوگوں کی مدد کررہی ہیں۔

”غوطہ” شامی دارالحکومت دمشق کے اطراف میں واقع ایک مضافاتی علاقہ ہے۔ یہاں کے مکین خوف و دہشت کے سائے تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہر لمحے بمباری یا گولہ باری سے موت کا خوف اور بچ جانے کی صورت میں بھوک سے مر جانے کا خوف طاری رہتا ہے۔

شام کے اس علاقے میں اب تک ہزاروں افراد جاں بحق اور زخمی ہوچکے ہیں جب کہ بڑے پیمانے پر غذائی قلت کی بھی اطلاعات ہیں۔

امہ دیب کے مطابق غوطہ میں 18 دن سے سینکڑوں افراد زیر زمین قائم شیلٹرز میں محصور ہیں جب یہاں بمباری کی جاتی ہے تو ہم اپنے شیلٹرز سے باہر آکر زخمیوں اور بیمار افراد کی مدد کرتے ہیں اور زیر زمین گھروں میں طبی امداد بھی پہنچاتے ہیں۔

پانچ برس سے زائد عرصے سے شام کی حکومت باغیوں کے زیر قبضہ علاقے خالی کرانے کی کوشش کررہی ہے جس کے باعث دونوں جانب لڑائی کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تک ہزاروں شامی شہری جاں بحق اور زخمی ہوچکے ہیں، ان میں بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے۔

گزشتہ 3 ہفتوں کے دوران شامی فورسز روس کے ساتھ مل کر ”غوطہ” کو خالی کرانے کی کوشش کررہی ہیں۔

شامی حکومت اور اس کی اتحادی فورسز شہری آبادی کو بھی نشانہ بنا رہی ہے۔ توپخانے کے فائر اور فضائی حملوں میں اب تک مشرقی غوطہ کے علاقے میں 900 افراد مارے جاچکے ہیں۔

امہ دیبا ان خواتین میں سے ایک ہے جنھوں نے شامی فوجی کی بمباری کے نتیجے میں اپنے بچے کھو دیے لیکن اس خاتون نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے ہم وطنوں کی مدد کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی۔

ایک حالیہ انٹرویو کے دوران بھی وہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئی تھیں۔ انہوں نے زیر زمین شیلٹرز میں محصور زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد فراہم کی۔

حال ہی میں سوشل میڈیا پر جاری اپنی ایک ویڈیو میں امہ دیبا نے کہا تھا کہ ” میں بھوتوں کے قصبے میں ہوں، جہاں ہر طرف تباہی اور موت ہے۔” اور بلاشبہ اس وقت مذکورہ شامی قصبے کی صورتحال کسی قبرستان سے کم نہیں۔


دوسری جانب ”لیلیٰ بقری” نے بتایا کہ زیر زمین شیلٹرز میں موجود خواتین گھروں میں طبی سہولتوں کے ساتھ دیگر چھوٹی موٹی مدد بھی فراہم کرتی ہیں۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ قصبے میں خواتین کا ایک گروپ خوف زدہ بچوں کے” نفسیاتی ریلیف سیشنز” لیتا ہے اور لوگوں کو کیمیائی ہتھیاروں سے بچاؤ کی تربیت بھی دیتا ہے کہ اگر ایسا کوئی حملہ ہو تو کس طرح کا ردعمل اختیار کرنا چاہیے۔

بقری نے بتایا کہ ان سرگرمیوں کے دوران ان کے لیے سب سے بڑی مشکل اپنی دو برس کی بیٹی کو سنبھالنا ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ”میری بیٹی جنگی طیاروں اور شیلنگ کی آوازوں سے سہم جاتی ہے جب کہ میں اسے ہمیشہ سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں کہ ان آوازوں سے ہمیں کچھ نہیں ہوگا۔ لیکن میں جانتی ہوں یہ سب اسے خوفزدہ کردیتا ہے کیوں کہ وہ ابھی بہت چھوٹی ہے۔”

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اکثر میں اسے سمجھاتے ہوئے خود بھی اندر سے بے حد ڈری ہوئی ہوتی ہوں۔

بقری نے اپنے پیغام میں کہا کہ ” ہم بھی باقی دنیا کی طرح رہنا چاہتے ہیں، پڑھنا چاہتے ہیں، آگے بڑھنا چاہتے ہیں، ہمارے بھی مقاصد اور خواب ہیں کیوں کہ ہم بھی انسان ہیں۔”

شامی بچوں پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ” جنگ کے دوران اس دنیا میں آنے والے ہمارے بچے ایک پر سکون زندگی سے لاعلم ہیں۔ انہیں معلوم ہی نہیں کہ ایک ”نارمل لائف” کیا ہوتی ہے۔ انہیں بہت سارے پھلوں کے ذائقے کا نہیں پتا۔ میری اپنی بیٹی نے کبھی کیلا نہیں کھایا۔ وہ صرف جنگی طیاروں اور بموں کی آواز میں فرق کرسکتی ہے۔”

ان ہی کی طرح غوطہ کی ایک اور باہمت خاتون ” نيفين ہواری” سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کے ذریعے اس جنگ زدہ علاقے کے حقائق دنیا کے سامنے لا رہی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ دمشق کے اس مضافاتی علاقے میں اس وقت خواتین ماں اور باپ دونوں کا کردار ادا کررہی ہیں۔ نيفين ہواری خود بھی دو بچوں کی ماں ہیں۔

نیفین نے کہا کہ ”ہم سب کو نفسیاتی تعاون کی ضرورت ہے۔ کبھی کبھی ہم اپنے بچوں کو خوف سے نکالتے نکالتے خود اس کا شکار ہوجاتے ہیں”

انہوں نے دنیا کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ”مشرقی غوطہ کی خواتین بہت باہمت ہیں۔ ہمارا جرم صرف یہ ہے کہ ہم آزادی اظہار رائے چاہتے ہیں اور اس کی سزا ہمیں گرفتاریوں، شیلنگ اور محاصرے کی صورت میں مل رہی ہے۔ اگر آپ ہمیں درست سمجھتے ہیں تو ہمارا پیغام اپنے ممالک کے فیصلہ سازوں تک پہنچائیں۔”

اس بدترین صورتحال میں جب کئی خاندان اپنے مردوں سے محروم ہوچکے ہیں (بیشتر گھروں کے مرد لاپتا ہیں یا مارے جاچکے ہیں اور بہت سے قید میں یا جنگ میں شامل ہیں) اس وقت غوطہ کی خواتین اپنے لوگوں کے لیے اہم کردار ادا کررہی ہیں۔

حال ہی میں اقوام متحدہ نے بھی شامی قصبے ”غوطہ” کی حالت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ” یہ زمین پر دوزخ کے مترادف ہے۔”


متعلقہ خبریں