’مولانا صرف دھرنا نہیں دھمکیاں بھی دے رہے ہیں‘

آزادی مارچ سے یہ تاثر گیا کہ پاکستان میں غیر جمہوری قوتیں آسانی سے دارالحکومت کو یرغمال بنا سکتی ہیں، ہما بقائی


اسلام آباد: سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر ہما بقائی کا آزادی مارچ میں مولانا فضل الرحمان کے خطاب سے متعلق کہنا ہے کہ مولانا صرف دھرنا نہیں دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔

ہم نیوز کے پروگرام ’ایجنڈا پاکستان‘ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آزادی مارچ سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے تشخص کو بہت نقصان پہنچا ہے، یہ تاثر گیا ہے کہ اس ملک کی غیر جمہوری قوتیں آسانی سے دارالحکومت کو یرغمال بنا سکتی ہیں۔

ڈاکٹر ہما بقائی نے کہا کہ اس وقت جب کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا معاملہ ہمارے سر پر سوار ہے اس دھرنے کے نتیجے میں دنیا کو کیا پیغام جائے گا۔ عالمی برادری پہلے ہی ہمیں مذہبی انتہاپسندی کے حوالے سے شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

معروف تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان اسی لیے مدرسہ اصلاحات کے بھی خلاف ہیں کہ ایسا ہونے کی صورت میں جو عوام آج ان کے ساتھ ہے وہ نہیں رہے گی۔

’مولانا کو حکومت میں حصہ نہیں ملا اس لیے جلسے کر رہے ہیں‘

انہوں نے کہا کہ لبنان اور عراق میں بھی وزرائے اعظم نے عوامی احتجاج کے نتیجے میں استعفیٰ دینے کا اعلان کیا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان میں کس قسم کے لوگ وزیراعظم سے استعفیٰ مانگ رہے ہیں۔

پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار اکرام سہگل کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہے ہیں لیکن انہوں نے کشمیریوں کے لیے ایک لفظ بھی نہیں بولا، چونکہ اس بار انہیں حکومت میں حصہ نہیں ملا اس لیے وہ جلسے جلوس کر رہے ہیں۔

اکرام سہگل نے کشمیر کے متعلق پاکستانی خارجہ پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد ہمیں ایک بڑا موقع فراہم کیا تھا، ہمیں ریٹائرڈ سفیروں کو دنیا کے مختلف ممالک بھیجنا چاہیے تھا لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا۔

آزادی مارچ کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ حکومت نے مارچ کے شرکا کا راستہ نہیں روکا جو کہ ایک اچھی روایت ہے۔

’مولانا کا مارچ کامیاب ہو یا نہ ہو، اس کے اثرات بہت گہرے ہوں گے‘

چیف ایڈیٹر عوامی آواز جبار خٹک نے ’ایجنڈا پاکستان‘ میں مولانا فضل الرحمان کے مارچ سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح ایم آر ڈی کی تحریک ناکام ہونے کے باوجود بھی ملکی سیاست پر گہرے اثرات چھوڑ گئی تھی اسی طرح مولانا کا مارچ کامیاب ہو یا نہ ہو، اس کے اثرات بہت گہرے ہوں گے۔

سینئر تجزیہ کار اور پروگرام کے میزبان عامر ضیا کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاست میں زندہ باد کی نسبت مردہ باد کے نعرے زیادہ لگتے ہیں، ملک کی اندرونی سیاست میں الجھ کر ہمیں خارجہ پالیسی کے محاذ کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔

انہوں نے خارجہ محاذ پر اقوام متحدہ میں پاکستان کی سابق مستقل مندوب کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بہت موثر انداز میں کام کیا ہے۔

عامر ضیاء کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں معاشی بہتری لانی ہو یا عالمی برادری کے سامنے کشمیر کا مقدمہ لڑنا ہو، دونوں کے لیے سیاسی استحکام بہت ضروری ہے، اس کے بغیر معاملات میں بہتری ایک خواب رہے گا۔


متعلقہ خبریں