مولانا فضل الرحمان امریکہ کیلئے احتجاج کر رہے ہیں، مبشر لقمان


کراچی: سینئر صحافی مبشر لقمان نے کہا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان یہ احتجاج امریکی توجہ حاصل کرنے کے لیے کر رہے ہیں لیکن احتجاج زیادہ لمبا عرصہ نہیں چل سکے گا۔

ہم نیوز کے پروگرام ایجنڈا پاکستان کے میزبان عامر ضیا سے بات کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار مبشر لقمان نے کہا کہ ریاست کمزور نہیں ہے اور نہ ہوتی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کا دھرنا زیادہ لمبا نہیں چلے گا۔

انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان سے زیادہ زیرک سیاستدان شاید ہی کوئی اس ملک میں ہو اور ان کو معلوم ہے کہ حکومت یا ریاست ان کے خلاف کس حد تک جا سکتی ہے۔ مولانا فضل الرحمان یہ دھرنا امریکہ کے لیے کر رہے ہیں اور وہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اصل میں طالبان سے مذاکرات کے لیے مولانا فضل الرحمان کی ان کو ضرورت ہے۔

مبشر لقمان نے کہا کہ دھرنے کے شرکا کو گزشتہ روز امریکی ایمبیسی میں بلایا گیا تھا اور ان کے دھرنے کو کون فنڈنگ کر رہا ہے؟

انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان انتہائی سمجھدار آدمی ہیں اور وہ قانون ہاتھ میں نہیں لیں گے۔ کراچی سے چلنے والا مارچ پر امن طور پر اسلام آباد پہنچا۔ حکومت کو جے یو آئی ف سے سیاسی طریقے سے نمٹنا چاہیے تھا لیکن حکومت کے پاس کوئی بڑے سیاسی اپروچ رکھنے والے افراد نہیں ہیں۔

سینئر صحافی نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کی تلوار آپ کے سر پر لٹک رہی ہے اور اب آپ کو گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے آخری موقع دیا گیا ہے۔ اگر مولانا فضل الرحمان نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو حکومت ان کے ساتھ سختی سے نمٹے گی۔

تجزیہ کار محمد طاہر نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کبھی بھی بند گلی میں نہیں جائیں گے اور ان کا ایجنڈا سیاسی ہی رہے گا۔ ان کا سیاسی بیانیہ کبھی بھی ایسا نہیں ہو گا جسے غیر سیاسی کہا جائے۔

انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان انتہائی ناپ تول کر بات کرتے ہیں اور ان کے بیان پر کوئی انہیں پکڑ نہیں سکتا۔ مولانا فضل الرحمان کسی کے کہنے پر یہ احتجاج نہیں کر رہے۔

محمد طاہر نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان قومی اداروں کے خلاف تو بات کر رہے ہیں لیکن کھل کر نہیں بول رہے۔ دھرنا اس ملک میں پہلی بار نہیں ہو رہا اس سے پہلے بھی ہو چکا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کوئی مذہبی کارڈ استعمال نہیں کر رہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کا رویہ درست نہیں ہے اور وہ ایک طرف تو مذاکراتی کمیٹی بنا رہی ہے لیکن دوسری طرف مولانا فضل الرحمان کے خلاف بھی بات کر رہے ہیں۔ عمران خان اب بھی کنٹینر کی گفتگو کر رہے ہیں۔

تجزیہ کار نے کہا کہ پاکستان میں ایک ملک گیر تحریک چلنے جا رہی ہے اور اس بارے میں مشاورت بھی جاری ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آزادی مارچ کا جلسہ آگے کہاں جاتا ہے اور اگر حکومت نے کوئی ردعمل دیا تو حکومت کی طرف سے یہ تحریک کے آغاز کا موقع فراہم کرنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ اس ملک میں احتساب ہونا چاہے اور اس میں کوئی لچک نہیں ہونی چاہیے۔ جب طاقت کا استعمال زیادہ ہوتا ہے تو وہ اپنی اہمیت کھو دیتا ہے اس لیے طاقت کا استعمال کم سے کم ہونا چاہیے۔

خاتون صحافی سبین آغا نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ کس کی آزادی کے لیے ہے۔ اس میں سے 51 فیصد خواتین کو تو باہر ہی رکھا گیا ہے اور اس میں بھی مخصوص قسم کے مرد موجود ہیں۔ وہ اقلیتی نشستوں کے لیے تو خواتین کو سامنے لیے آتے ہیں لیکن انہیں کسی اور معاملے میں آگے نہیں لایا جاتا۔

انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کا احتجاج زیادہ دیر تک نہیں چل سکے گا۔ اس کے کوئی دور رس نتائج بھی نظر نہیں آ رہے۔ مذہبی کارڈ صرف مذہبی جماعتیں ہی نہیں بلکہ سیاسی جماعتیں بھی استعمال کرتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں حکومت کو مولانا فضل الرحمان کی گیم سمجھ نہیں آ رہی، حامد میر

سبین آغا نے کہا کہ جلسہ جے یو آئی ف کا ہے اور ہمیں اس جلسے میں عوام نہیں بلکہ جے یو آئی ف کے کارکنان نظر آ رہے ہیں اور سیاسی طور پر احتجاج کا بین الاقوامی سطح پر بہت اثر پڑتا ہے۔ ہمیں اس وقت مذہبی جماعتوں کی ضرورت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کی سیاست سب کو ساتھ لے کر چلنے کی نہیں ہے کیونکہ وہ خواتین کو تو جگہ ہی نہیں دے رہے۔

عامر ضیا نے کہا کہ صرف حکومت کے لیے نہیں بلکہ ہر پاکستانی کا سوال ہے کہ کیا کسی کو یہ حق حاصل کے وہ منتخب حکومت کو ختم کرنے کی بات کرے۔ کسی مجمع کی خواہش پر اگر حکومت کا خاتمہ ہو گیا تو یہ سلسلہ چل پڑے گا۔

مولانا فضل الرحمان کا کھیل خطرناک کھیل ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے اس کھیل میں طالبان کے جھنڈے بھی نظر آئے اور ڈنڈے بھی۔


متعلقہ خبریں