پی ٹی آئی تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے، شبلی فراز

’مولانا فضل الرحمان سے معاملات طے پا گئے ہیں‘


اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سینیٹر شبلی فراز کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف کی جانب سے تحریک عدم اعتماد سمیت تمام آئینی راستوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

ہم نیوز کے مارننگ شو ’صبح سے آگے‘ میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کا استعفیٰ لینا حزب اختلاف کا خواب ہے اور خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

شبلی فراز نے کہا کہ مولانا کی قیادت میں آزادی مارچ میں حصہ لینے سے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی سیاست کو شدید دھچکا پہنچا ہے، اب ان کا کردار صرف ہمنوا کا رہ گیا ہے جو پیچھے بیٹھ کر تالیاں بجائے۔

انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو نے مولانا فضل الرحمان کی انہی باتوں کی توثیق کی جنہوں نے ان کے نانا اور والدہ کو تختہ دار تک پہنچایا، سیاسی جماعتیں تباہ ہونے کی وجہ بنیادی اصولوں سے ہٹ کر اقتدار کی سیاست کرنا ہے اور یہی ان دونوں جماعتوں نے کیا۔

ن لیگ اور پی پی پی این آر او چاہتی ہیں

پی ٹی آئی کے سینیٹر نے کہا کہ ان دونوں جماعتوں کی جانب سے مفادات کی سیاست کیے جانے کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ جب یہ حکومت میں تھے تب بھی یہ سب مل کر ہمارے مخالف تھے، اب جب کہ پی ٹی آئی برسر اقتدار ہے تو بھی یہ سب مل کر ہماری مخالفت میں اکٹھے ہو گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر یہ سب اپنی لیڈرشپ کی کرپشن کے مقدمات سے چھٹکارے کے لیے این آر او چاہتے ہیں۔

شبلی فراز کا کہنا تھا کہ مولانا کے مطالبات سمجھ سے بالاتر تھے مگر اب ان کے ساتھ معاملات طے پا گئے ہیں اور اس سلسلے میں ہمیں کوئی پریشانی نہیں رہی۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کی طرف آزادی مارچ کرکے اور شہر اقتدار کو یرغمال بنا کر مولانا نے ملک کی خدمت نہیں کی، انہوں نے معیشت کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ کشمیر کاز پر بھی پانی پھیر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے اتنے مدلل انداز میں کشمیر کا مقدمہ لڑا مگر انہوں نے سب کچھ خراب کر دیا۔

’ہمارا مقصد حکومت نہیں ملک بچانا ہے‘

پی ٹی آئی کے رہنما کا کہنا تھا کہ مولانا دراصل مدرسہ اصلاحات کے مخالف ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد حکومت کو نہیں ملک کو بچانا ہے اور اس کے لیے جو بھی کرنا پڑا کریں گے۔

آزادی مارچ کے شرکا کی واپسی کے لیے رکھے گئے مطالبات سے متعلق شبلی فراز کا کہنا تھا کہ ہم انتخابی اصلاحات کے حق میں ہیں اور گفتگو میں شائستگی کا بھی میں قائل ہوں۔

دھاندلی کی تحقیقات سے متعلق پارلیمان کی تحقیقاتی کمیٹی کو فعال بنانے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس کے حق میں ہیں۔


متعلقہ خبریں