مولانا فضل الرحمان سے غلطی ہو گئی، تجزیہ کار نذیر لغاری


کراچی: سینئر صحافی اور تجزیہ کار نذیر لغاری نے کہا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے غلطی ہوئی کہ انہوں نے سب سے آخری مطالبہ سب سے پہلے کر دیا۔

ہم نیوز کے پروگرام ایجنڈا پاکستان میں میزبان عامر ضیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار نذیر لغاری نے کہا کہ حزب اختلاف کے مطالبات کو سنجیدہ لیا جانا چاہے اور وہ درست بھی ہیں۔ صرف گزشتہ انتخابات نہیں اس سے پہلے کے بھی انتخابات میں مسائل رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ آخری بات سب سے پہلے کہیں گے انہیں آہستہ آہستہ آگے بڑھنا چاہیے تھا اب مولانا فضل الرحمان کے لیے پیچھے ہٹنا مشکل ہو گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان بہت زیادہ زیرک سیاستدان ہیں لیکن لگتا ہے یہاں ان سے غلطی ہو گئی۔

سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ پاکستان بننے کے بعد پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ مذہبی جماعت کے رہنما مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں اور دیگر جماعتیں ان کے پیچھے کھڑی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئین سے بالادست کوئی چیز نہیں ہے لیکن شاید مولانا فضل الرحمان یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی شخص یا ادارہ آئین سے بالادست ہے اور اگر ایسا ہے تو اس پر کھل کر بحث کرنی چاہیے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔

نذیر لغاری نے کہا کہ احتجاج اور دھرنے جمہوریت کا حصہ ہے اور ان کے کوئی نہ کوئی نتائج نکلتے ہیں۔ آزادی مارچ کا بھی کوئی نہ کوئی نتیجہ نکلے گا۔

انہوں نے کہا کہ خاندانی سیاست کوئی بری چیز نہیں ہے کئی بڑے ممالک میں ایسا ہو رہا ہے۔ عمران خان کے بارے میں سب کی رائے تھی کہ یہ ملک میں تبدیلی لائے گا لیکن ایسا نہیں ہو سکا بلکہ الٹا اس ملک کا برا حال کر کے رکھ دیا، وفاق نے مختلف اداروں سے ذمہ داری واپس لینا شروع کر دی ہے جبکہ معیشت کا بھی بُرا حال ہے۔

نذیر لغاری نے کہا کہ دونوں فریقین کو سنجیدگی سے ملک کر بیٹھنا چاہیے، محاذ آرائی کسی کے لیے بھی بہتر ثابت نہیں ہو گی۔

دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ نے کہا کہ انتخابات کے مسائل اپنی جگہ پر موجود ہیں اور الیکشن کمیشن کا ہمیشہ سے فیصلہ درست رہا ہے۔ سیاستدانوں کا یہ مسئلہ ہمیشہ رہا ہے کہ جب ہار جاتے ہیں تو دھاندلی کا شور مچاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات میں فوج خود نہیں آتی بلکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بلائی جاتی ہے اس میں فوج کو تنقید کا نشانہ بنانا درست نہیں ہے۔

جنرل (ر) غلام مصطفیٰ نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کو خطرہ تھا کہ مدارس میں ریفارمز ہو جاتے ہیں تو ان کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔ مذہبی جماعتوں کو عوام نے کبھی بھی سیاست میں اہمیت نہیں دی اور ایسا ہونا بھی بہت مشکل ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو معلوم تھا کہ دھرنے میں معاملات طے نہیں ہوں گے اس لیے وہ پیچھے ہٹ گئے۔

دفاع تجزیہ کار نے کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کو چاہیے کہ تمام بدعنوان افراد کے خلاف کارروائی کرے چاہے وہ کسی بھی جماعت سے ہوں اور اس معاملے کو زیادہ لمبا نہیں لٹکانا چاہے جلد سے جلد فیصلے کرنے چاہیئیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کو حکومت چلانے کا تجربہ نہیں ہے اور اتحادیوں کو ساتھ چلانا سب سے مشکل کام ہوتا ہے لیکن عمران خان اب تک سولو فلائٹ کے عادی ہیں اور اتحادیوں سے مشاورت نہیں کرتے۔

غلام مصطفیٰ نے کہا کہ اب مولانا فضل الرحمان مشکل میں پھنس گئے ہیں اور اپنے مطالبات تبدیل کر رہے ہیں جبکہ عوام آزادی مارچ سے لاتعلق ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ صرف مخصوص طبقہ ہی ہے۔ ہمارے مسائل کچھ اور ہیں اور ہم پھنس کہیں اور گئے ہیں۔

بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز نے کہا کہ پاکستان کی فوج بہت مضبوط ہے جس کی وجہ سے وفاق بھی مضبوط ہے اس وجہ سے فوج کو کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے نا سمجھی میں ایسا قدم اٹھایا ہے جو انہیں نہیں کرنا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے انتہائی اہم نکات پر احتجاج کر رہے ہیں لیکن پہلے وہ ثابت تو کریں کہ دھاندلی ہوئی۔ عدالت یا الیکشن کمیشن سے رجوع نہیں کیا اور احتجاج شروع کر دیا۔ آزادی مارچ کی وجہ سے کشمیر کاز کو بہت نقصان پہنچا ہے اور پاکستان کا امیج خراب ہو رہا ہے۔

بریگیڈیئر (ر) حارث نواز نے کہا کہ نیب کو اپنے مقدمات کو جلد سے جلد نمٹانا چاہیے تھا۔ ممکن ہے اب موجودہ صورتحال کی وجہ سے چیئرمین نیب کوئی تیزی لا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف کے بعد ملک میں مسلسل جمہوری حکومتیں چل رہی ہیں اور جمہوریت پھل پھول رہی ہے۔ فوج کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات میں کبھی بھی دھاندلی نہیں ہو سکتی۔

ایم کیو ایم کے رہنما امین الحق نے کہا کہ جمہوریت میں ہر سیاسی جماعت کے پاس احتجاج کا حق ہونا چاہیے اور اسی لیے حکومت نے آزادی مارچ کے شرکا کو احتجاج کی اجازت دی اور وہ کراچی سے اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ ہر دور میں حزب اختلاف یہ مطالبہ کرتی ہے وزیر اعظم استعفیٰ دے لیکن ایسا نہیں ہوتا، ایم کیو ایم پاکستان یہ سمجھتی ہے ہر حکومت کو 5 سال کی مدت پوری کرنے دینی چاہیے اور تبدیلی ووٹ کے ذریعے ہی ہونی چاہیے۔

امین الحق نے کہا کہ کراچی اور حیدرآباد میں ہونے والے انتخابات میں ہر سیاسی جماعت یہ مطالبہ کرتی تھی کہ فوج کی نگرانی میں انتخابات ہونے چاہیئیں لیکن اب یہ ملک بھر میں فوج کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات کی مخالفت کر رہے ہیں لیکن ہم بھی یہ چاہتے ہیں الیکشن کمیشن کو فعال ہونا چاہے اور شفاف انتخابات ہونے چاہیئیں۔

میزبان عامر ضیا نے کہا کہ حزب اختلاف کے مطالبات کو پرکھنا اور جاننا بہت ضروری ہے۔ آئین کی بالادستی پر کوئی دو رائے نہیں ہے۔ تمام ادارے آئین کی بالادستی چاہتے ہیں۔ الیکشن کمیشن ضرورت پڑنے پر فوج کو طلب کرتی ہے اور فوج کی غیر موجودگی میں دھاندلی کے کئی واقعات ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان یا دیگر جماعتیں فوج کو متنازعہ بنا رہے ہیں۔ دھرنے نے ہر کسی کو مشکل میں ڈال دیا ہے مسائل کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔


متعلقہ خبریں