11,000 سائنسدانوں کی رپورٹ نے نسل انسانی کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی

11,000 سائنسدانوں کی رپورٹ نے نسل انسانی کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی

153 ممالک کے 11،000 سائنسدانوں نے ماحولیاتی تنبیہ (کلائمیٹ وارننگ) جاری کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر بڑے پیمانے پر اقدامات نہ کیے گئےتو انسانیت کو ناقابل بیان عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

بائیوسائنس جرنل میں شائع کردہ تحقیق کے مطابق ماحولیاتی خرابی اس وقت ایمرجنسی کی سطح تک پہنچ چکی ہے اور اسے مزید ٹالا نہیں جا سکتا، معاشروں، کارپوریشنز اور حکومتوں کی جانب سے کیے گئے اقدامات بہت ناکافی ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بڑھتی حرارت کا شکار کرہ ارض مزید گرم ہو رہا ہے، یہ ایسا خطرہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے زراعت سے لے کر تعلیم تک زندگی کے ہر شعبے کو ازسرنو تشکیل دینا پڑے گا۔

سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ جزوی سطح پر حل تلاش کرنے کے بجائے انسانی معاشرے کے فطرت کے ساتھ قائم رشتے میں بنیادی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔

4 نومبر کو پیرس ماحولیاتی معاہدے کے تین برس مکمل ہونے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے معاہدے سے الگ ہونے کا عمل شروع کرنے کے اعلان کے بعد یہ تحقیق سامنے آئی ہے۔

تحقیق کے ابتدائیہ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کو درپیش تباہی کے خطرے سے انسانیت کو آگاہ کرنا سائنسدانوں کا اخلاقی فریضہ ہے اور اسے ویسے ہی بیان کرنا چاہیئے جیسا کہ خطرے کی نوعیت ہے۔

سائنسدانوں نے مزید کہا ہے کہ وہ غیر مبہم انداز میں بتانا چاہتے ہیں کہ کرہ ارض کو ماحولیاتی ایمرجنسی کا سامنا ہے۔

2018 میں سامنے آنے والی رپورٹ

اس سے قبل 2018 میں انٹرگورنمینٹل پینل آن کلائمیٹ چینج (آئی پی سی سی) میں خبردار کیا گیا تھا کہ اگر بڑے اقدامات نہ کیے گئے تو اگلے 12 سالوں کے اندرزمین کے درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری کا اضافہ ہو جائے گا۔

اس رپورٹ نے ساری دنیا کی شہ سرخیوں میں جگہ حاصل کی تھی اور اس کے نتیجے میں برطانیہ، پرتگال، کینیڈا اور ارجنٹینا سمیت 23 ممالک نے ماحولیاتی ایمرجنسی کا اعلان کر دیا تھا، لاکھوں نوجوان ماحولیات کو بہتر بنانے کے مطالبے کے ساتھ مختلف ممالک کی سڑکوں پر آ گئے تھے۔

موجودہ تحقیق کے مصنفین میں شامل ڈاکٹر ولیم رپل کا کہنا ہے کہ وقت ہمارے ہاتھوں سے نکلا جا رہا ہے اور فطری ایکوسسٹم کو شدید خطرہ لاحق ہے۔

چھ شعبے جن پر توجہ دینا ضروری ہے

چالیس برسوں تک زندگی کے ہرشعبے کا بنظرغائر تجزیہ کرنے کے بعد سائنسدانوں نے چھ ایسے شعبے منتخب کیے ہیں جن میں انسانیت کو فوری طور پر عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔

ان میں توانائی، قلیل مدت میں آلودگی پھیلانے والے مظاہر، فطرت، خوراک، معیشت اور آبادی شامل ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تیل، کوئلہ اور گیس کے جتنے بھی ذخائر زمین کے اندر موجود ہیں انہیں وہیں رہنے دینا چاہیئے اور توانائی کے حصول کے لیے ان کی جگہ قابل تجدید اور دیگر صاف ستھرے ذرائع استعمال کرنے چاہئیں۔

دوسرے فاسل فیول کے ذخائر، جن کی قیمت تقریباً 4 ہزار 700 ارب ڈالر بنتی ہے، کو ضائع کر دینا چاہیئے، اور کاربن پیدا کرنے والی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کر دینا چاہیئے تاکہ اس رویے کی حوصلہ شکنی ہو۔

اسی طرح قلیل مدت میں آلودگی پھیلانے والے مظاہر جن میں میتھین، بلیک کاربن، دیگر عناصر شامل ہیں، کا اخراج فوری طور پر کم کرنا چاہیئے۔

تیسرا عنصر جس پر کام کرنے کی ضرورت ہے وہ کرہ ارض کے ایکوسسٹم کا تحفظ اور بحالی ہے، اس کے لیے جنگلات، سبزہ زار اور سمندری گھاس کو بڑھانا ضروری ہے کیونکہ یہ ماحول میں موجود کاربن کی مقدار میں کمی لاتے ہیں۔

سبزیوں سے بنی خوراک کھانا اور گوشت سے پرہیز چھ میں سے چوتھا مظہر ہے جو نہ صرف انسانی صحت پر اچھے اثرات مرتب کرتا ہے بلکہ اس سے گرین ہاؤس گیسوں کی ماحول میں موجودگی میں کمی واقع ہوتی ہے۔

پانچواں مظہر معیشت ہے، یہ انسان کو زمین سے معدنیات اور دیگر ایسی ضروری چیزیں نکالنے پر مجبور کرتی ہے  جو ایکوسسٹم قائم رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ انسان کو معیشت کے ان شعبوں کی جانب توجہ دینی چاہیئے جہاں زمین سے ذخائر نکالنا کم سے کم ضروری ہو۔

سائنسدانوں کے بیان کردہ چھ عناصر کے آخر میں انسان کی بڑھتی ہوئی آبادی ہے جس میں ہر سال 8 کروڑ یا روزانہ دو لاکھ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے، آبادی میں اس اضافے کو نہ صرف روکنا بلکہ اس میں کمی لانا ضروری ہے۔

40 سال قبل سائنسدانوں نے کیا کہا تھا

آج سے چالیس برس پہلے 50 ممالک کے سائنسدانوں نے جنیوا میں پہلی عالمی ماحولیاتی کانفرنس (1979) میں پہلی بار اس خطرے کی جانب نشاندہی کی تھی جو آج پوری شدت سے انسانیت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔

سائنسدان اس عفریت کے بارے میں تنبیہ کرتے آ رہے ہیں، 1992 کی ریو سمٹ ہو، 1997 کا کیوٹو پروٹوکول ہو یا 2016 کا پیرس معاہدہ، ان تمام میں نسل انسانی کو ماحولیات سے جڑے خطرات کے بارے میں خبردار کیا گیا ہے۔

اب تک نیم دلی سے کیے جانے والے اقدامات کے باعث گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ آنے والی نسل کے لیے سنگین خطرہ ہے۔


متعلقہ خبریں