نواز شریف کی طبی بنیادوں پرمنظور کی گئی ضمانت کا تفصیلی فیصلہ جاری

فائل فوٹو


اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پرمنظورکی گئی  ضمانت کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔جسٹس عامر فاروق نے 22 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ تحریر کیا ۔ تفصیلی فیصلے میں نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت منظور کرنے کی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔

سپیشل میڈیکل بورڈ کی رپورٹ کو بھی تفصیلی فیصلے کا حصہ بنایا گیا ہے۔

عدالت نےلکھا کہ اپنے مختصر فیصلے میں نواز شریف کو سزا معطل کر کے آٹھ ہفتوں کی ضمانت دی گئی۔اگر نواز شریف کی صحت میں بہتری نہیں آتی تو پنجاب حکومت 8 ہفتے بعد ازخود سزا معطل کرنے سے متعلق فیصلہ دے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے لکھا کہ نوازشریف خود بھی پنجاب حکومت کو درخواست دے سکتے ہیں۔پنجاب حکومت اگر تعاون نہ کرے تو عدالت کو مطلع کیا جاسکتا ہے، آرٹیکل 401 کے تحت حکومت کو سزا معطل کرنے کا اختیار ہے۔

عدالت عالیہ نے لکھا کہ قانون کے مطابق صوبائی حکومت خود سے سزا معطل کرنے کا اختیار رکھتی ہے، پنجاب حکومت اگر نواز شریف سے تعاون نہ کرے تو وہ عدالت سے رجوع کر سکتے ہں ،پنجاب حکومت جب تک فصلہ نہیں دے گی تو سزا معطل رہے گی۔

فیصلے میں کہا گیاہے کہ صوبائی حکومت کو رولز کے مطابق نبص اور دیگر مقدمات میں سزا معطلی کا اختیار ہے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ہرشخص چاہے وہ سزا یافتہ قیدی ہو اس کے بناادی حقوق کا خیال رکھے۔

عدالت نے لکھا کہ ایگزیکٹو  اپنی ذمہ داری سے عہدہ برا نہیں ہو سکتا، قانون کی حکمرانی کے لئے تما م اداروں کو اپنا کردار اداکرنا ضروری ہے۔ پنجاب حکومت دیگر قدییوں کی صحت کے حوالے سے بھی اقدامات  کرے۔

وفاقی اور صوبائی حکومت عدالتی فیصلہ کو آنکھیں کھولنے کے طور پر لے سکتی ہے،نواز شریف کی بیماری جیسے کیسز عدالتوں میں نہیں آنے چاہیں،جینے کا حق ہر شخص کو ہے چاہے آزاد ہو یا قید،اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنا ریاست کے ہر ادارے پر لازم ہے۔

عدالت عالیہ نے لکھا کہ دل اور پلیٹ لٹس کے علاج کے لیے نواز شریف کو دوسرے اسپتال جانا پڑ رہا ہے،بہترین اسپتال کے باوجود نواز شریف کے علاج کے لیے تمام سہولیات نہیں ہیں۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں شدید بیمار قیدیوں کو ریلیف فراہم کریں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے لکھا کہ  قیدیوں کو واش روم، تفریح مقام اور صحت کی بنیادی سہولیات تک دستیاب نہیں،کئی قیدی صحت اور دیگر بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی پر زندگی کی  بازی ہار جاتے ہیں۔ اسپتالوں کی حالت بہتر ہو اور قیدیوں کو طبی سہولیات دی جائیں تو عدالتوں پر بوجھ نہ پڑے۔

یہ بھی پڑھیے: نواز شریف اور انکی صاحبزادی مریم نواز کتنے عرصے بعد گھر لوٹے؟

عدالت عالیہ نے لکھا کہ قیدیوں کو بھرپور طبی امداد دینا  بھی ریاست کی اولین ذمہ داری ہے،صوبائی حکومت کی لاپرواہی کی وجہ سے ہزاروں بیمار قیدی بےیارو مددگار پڑے رہتےہیں۔


متعلقہ خبریں