“پانچ سال کی عمر سے ہارمونیم بجا رہا ہوں”

"اپنی مونچھ سے بہت زیادہ محبت ہے"


اسلام آباد: پاکستان کے معروف موسیقار اور اداکار ارشد محمود نے کہا کہ موسیقی کی حِس ہر شخص میں موجود ہوتی ہے، ہمیں لگتا ہے کہ ہمیں اس کا علم نہیں لیکن دراصل دماغ کے کسی حصے میں اس کا احساس موجود ہوتا ہے۔

ہم نیوز کے مارننگ شو “صبح سے آگے” میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جب شو کے میزبان اویس منگل والا ان کے شاگرد ہوا کرتے تھے تو موسیقی سے بہت دور بھاگا کرتے تھے لیکن میں نے انہیں کوشش کرتے رہنے کا سبق دیا اور ایک دن اویس بھاگا بھاگا آیا اور بولا “سر میں نے یہ کر لیا۔”

ان کا کہنا تھا کہ ایک اچھی دعا ضرور سنی جاتی ہے لہذا انسان کو ہمیشہ دعا کرنی چاہیئے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی تگ و دو جاری رکھنی چاہیئے۔

انہوں نے بتایا کہ ایک دور میں مجھے اس بات کا وہم ہو گیا کہ میرے جیسی موسیقی کوئی تخلیق نہیں کرتا، اس وقت میں نے یہ سوچا کہ اب مویسقی کو بطور پیشہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

معروف موسیقار نے یہ بھی بتایا کہ وہ پانچ سال کی عمر سے ہارمونیم بجا رہے ہیں اور تیسری جماعت میں اپنے اسکول کے میوزک گروپ کے رکن بھی تھے۔

اداکار ارشد محمود نے کہا کہ انہیں اپنی مونچھوں سے بہت زیادہ محبت ہے، اداکاری کی پیشکش تو کئی بار ہوئی لیکن اس کے لیے اپنی مونچھوں سے محروم ہونا شرط تھی اس لیے انہوں نے انکار کر دیا۔

ڈراموں میں اداکاری کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ انہیں اپنا کوئی ڈرامہ زیادہ پسند نہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ شاہد اس سے بہتر کام کیا جا سکتا تھا۔

پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اسد عمر کو سراہتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک اچھے اور اپنے کام سے محبت کرے والے انسان ہیں، جب بھی ان سے ملاقات ہوئی وہ بہت اچھے اخلاق سے ملے ہیں۔

ملک کے سیاسی حالات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ارشد محمود نے فیض احمد فیض کی یہ نظم پڑھ کر سنائی:

جب دکھ کی ندیا میں ہم نے
جیون کی ناؤ ڈالی تھی
تھا کتنا کس بل بانہوں میں
لہو میں کتنی لالی تھی
یوں لگتا تھا دو ہاتھ لگے
اور ناؤ پورم پار لگی
ایسا نہ ہوا۔ ہر دھارے میں
کچھ ان دیکھی منجدھاریں تھیں
کچھ مانجھی تھے انجان بہت
کچھ بے پر کی پتواریں تھیں
اب جو بھی چاہو چھان کرو
اب جتنے چاہے دوش دھرو
ندیا تو وہی ہے ناؤ وہی
اب تم ہی کہو کیا کرنا ہے
اب کیسے پار اترنا ہے


متعلقہ خبریں