امید کا دیا: اسٹیفن ولیم ہاکنگ بجھ گیا


اسلام آباد: پلکوں کی جنبش اور دماغ کی لہروں سے کائنات کے اسرارورموزبتانے والا اسٹیفن ولیم ہاکنگ ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گئے۔

ماہر حیاتیات کا بیٹا اور نوبل انعام یافتہ سائنسدان پروفیسراسٹیفن ہاکنگ آٹھ جنوری 1942 کو آکسفورڈ میں پیدا ہوئے۔

لندن میں پل بڑھ کر جوان ہونے والے عظیم برطانوی سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے گریجویشن اور کیمبرج یونیورسٹی سے ماسٹرزکیا۔

22 سال کی عمر میں شدید بیماری کا شکار ہونے والے اسٹیفن ہاکنگ نے کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔

ڈاکٹروں کے مطابق محض دو سے تین سال مزید زندہ رہ سکنے والے اسٹیفن نے بعد از بیماری پی ایچ ڈی کی اور تین بچوں کے باپ بھی بنے۔

اسٹیفن نے اپنی پہلی اہلیہ جین وائلڈ کو طلاق دینے کے بعد ایلین میسن نامی خاتون سے دوسری شادی کی۔  ایلین میسن کے شوہر نے ہاکنگ کے لئے آواز پیدا کرنے والا آلہ بنایا تھا۔  دوسری بیوی سے بھی 2006 میں اس نے علیحدگی اختیار کرنےکی دستاویزات جمع کرادی تھیں۔

نوجوانی میں گھڑ سواری کے شوقین اسٹیفن ہاکنگ کو کیمبرج یونیورسٹی میں دوران تعلیم دماغ کا ایک ایسا عارضہ لاحق ہوا جس کی وجہ سے ان کا پورا جسم مفلوج ہو گیا۔

1964 میں جب وہ اپنی پہلی شادی کی تیاری کررہے تھے تو اس وقت ڈاکٹرز نے انہیں بتایا کہ وہ مزید دو سے تین سال زندہ رہ سکیں گے۔

اسٹیفن ہاکنگ نے طاقتوردماغ، پلکوں اور محض انگلی کی جنبش سے بلیک ہولز سمیت دیگر سربستہ رازوں سے پردہ اٹھایا۔

دنیا کو اہم ترین رازوں سے آگاہی دینے والے اسٹیفن ہاکنگ کو دنیائے سائنس نے آئن اسٹائن کے بعد دوسرا بڑا سائنسدان قراردیا گیا۔

اسٹیفن ولیم ہاکنگ کی سوچ و فکر سے مختلف مذاہب کے اسکالرز نے اختلاف کیا لیکن کسی کی پرواہ کئے بغیر وہ استقامت سے اپنے خیالات پر ڈٹے رہے۔

باہمت شخص نے محض اپنے حوصلوں سے بیماری کو اس حد تک شکست دی کہ ڈاکٹرز حیران رہ گئے۔

1974 میں اسٹیفن ہاکنگ نے دنیا پر یہ ثابت کرکے تہلکہ مچایا کہ بلیک ہولز صرف بلیک نہیں ہیں بلکہ بتدریج شعاعیں خارج کررہے ہیں۔ اس تھیوری کو ہاکنگ ریڈی ایشن (ہاکنگ کی تابکاری/ اشعاع) کہتے ہیں۔

اس تھیوری نے پہلی مرتبہ کوانٹم نظریہ کے عملی اظہار کو نظریہ اضافیت پر برتری حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا۔

سائنسدانوں کے مطابق زندہ درگور کردینے والی بیماری میں مبتلا اسٹیفن نے پلکوں اور آنکھوں سمیت اپنی سوچ سے جو کام لیا اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی ہے۔

وہ مفلوج ہونے کے باوجود لیکچرز دیتے، آرٹیکل لکھتے، سفرکرتے، ہنسی مذاق کرتے اورزندہ دلی کا ثبوت دیتے  تھے۔

1988 میں ’اے بریف ہسٹری آف ٹائم‘ نامی مشہور کتاب تخلیق کرنے والے اسٹیفن بولنے کے لئے بھی کمپیوٹر کے محتاج ہو چکے تھے۔

1990 میں جب اسٹیفن نے اپنے دوستوں کے آرٹیکل کا مطالعہ کیا تواس میں انہیں ٹائم مشین کا ذکر ملا جس نے انہیں مزید تحقیق کرنے پراُکسایا۔

آئین اسٹائن کی پیدائش کے روز (14 مارچ) دنیا کو چھوڑجانے والے اسٹیفن ہاکنگ کو یقین تھا کہ وقت میں سفر کرنا ناممکن ہے۔

2016 میں 74 برس کی عمر میں آکسفورڈ یونین ڈیبیٹنگ سوسائٹی سے خطاب کے دوران ان کی پیشن گوئی نے دنیا میں بھونچال پیدا کردیا۔ انہوں نے  پیشن گوئی کی کہ اگلے ایک ہزار برسوں تک انسانوں کو اپنا ٹھکانہ کسی اور سیارے پر بناناہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ انسانیت کو انسان کی اپنی تخلیقات کی وجہ سے خطرات کا سامنا ہے۔ ان خطرات میں ایٹمی جنگ ،ماحولیاتی تپش اور جنیاتی طور پر تیار کردہ جرثومے شامل ہیں۔

عظیم برطانوی سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ نے بی بی سی کے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) یا مصنوعی ذہانت کی ترقی انسانی نسل کا خاتمہ کردے گی۔

زندگی کے متعلق ایک مرتبہ انھوں نے کہا تھا کہ میں نے یہ سوچ کر زندگی سے لطف لینا شروع کیا کہ زندگی بہت چھوٹی ہے۔

اسٹیفن کے بچوں لوسی ، رابرٹ اور ٹم نے ان کی دنیا سے رخصتی پر کہا ہے کہ اسٹیفن ہاکنگ ایک عظیم سائنسدان اور غیر معمولی آدمی تھے اور ان کا کام آنے والے سالوں میں بھی زندہ رہے گا۔

اپنی زندگی سے لاکھوں بجھے دلوں میں امید کا دیا روشن کرنے والے اسٹیفن کو 12 اعزازی ڈگریاں دی گئیں۔

2014 میں ان کی زندگی پر فلم ’دی تھیوری آف ایوری تھنگ‘ بنائی گئی جس میں مرکزی کردار ایڈی ریڈ میئر نے ادا کیا تھا۔


متعلقہ خبریں