’یہ تاثر غلط ہے کہ بلوچستان یونیورسٹی کے واش رومز میں کیمرے نصب تھے‘

بلوچستان یونیورسٹی میں طلبا کو بلیک میل، ہراساں کرنےکا انکشاف

فائل فوٹو


کوئٹہ: بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ،جسٹس جمال مندوخیل نے کا کہناہےیہ تاثر غلط ہے کہ یونیورسٹی اور ہاسٹلز کے واش رومز میں کیمرے نصب کئے گئے تھے ،تاہم یونیورسٹی میں کچھ کیمرے بغیر اجازت کے لگائے گئے ۔

انہوں نے کہا اگر سی سی ٹی وی ریکارڈ چوری کیا گیا تو یہ جرم ہے۔ ہم پھر دعا کرتے ہیں کہ یہ سب جھوٹ ہو اگر ایسا نہیں تو یہ بہت بڑا المیہ ہے۔ اس میں جو بھی ملوث ہے بلاتفریق کارروائی کی جائے۔

انہوں نے یہ ریمارکس  بلوچستان ہائیکورٹ میں جامعہ بلوچستان ہراسگی اسکینڈل کیس کی سماعت  کے دوران دئے۔

چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس عبداللہ بلوچ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ پچھلے آرڈر پر کیا عملدرآمد کیا گیا؟

بلوچستان یونیورسٹی انتظامیہ کے نمائندے نے کہا کہ  غیر ضروری سی سی ٹی وی کیمرے ہٹا دیئے گئے ہیں،

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا رجسٹرار صاحب آپ سے کہا تھا بتائیں کہ جنہیں معطل کیا تو کیوں کیا اگر کوئی وجہ ہے تو کیا کارروائی کی گئی؟

رجسٹرار جامعہ بلوچستان نے جواب دیا ایف آئی اے کی حتمی رپورٹ کا انتظار کررہے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا یونیورسٹی کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے

جسٹس جمال مندوخیل نے پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے یونیورسٹی انتظامیہ کو بھیجے گئے مراسلے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا پارلیمانی کمیٹی کس حیثیت سے یونیورسٹی وائس چانسلر کو مراسلہ لکھ سکتی ہے؟ اسکینڈل سے پہلے سب سوئے ہوئے تھے ہم نے معاملہ اٹھایا تو سب کی حب الوطنی جاگ گئی؟

عدالت عالیہ کے چیف جسٹس نے کہا کہ یونیورسٹی کو اتنا بدنام کردیا گیا ہے کہ والدین بچیوں کو بھیجنے سے گھبرا رہے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن سے منسلک رپورٹر سے پوچھا آپ کس چیز کی ہڑتال کررہے ہیں؟

اس پر پروفیسر فرید اچکزئی نے کہا ہماری جانب سے یا طلبہ کی جانب سے کوئی ہڑتال نہیں ہورہی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے یونیورسٹی کے وکیل سے کہا آپ نے کسی کی مداخلت برداشت کی تو آپ سے پوچھا جائے گا۔

فاضل جج نے ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے سے استفسار کیا آپ کہاں تھے صبح سے آپ کو بلارہے ہیں؟

ڈپٹیئ ڈائریکٹر نے جواب دیا کہ  حتمی رپورٹ کیلئے 2 ہفتے کی مزید مہلت چاہئے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے رجسٹرار یونیورسٹی سے پوچھا جو لوگ ملوث ہیں آپ ان کے خلاف ڈیپارٹمنٹل انکوائری کرکے کارروائی کیوں نہیں کرتے؟

رجسٹرار نے جواب دیا ہم ایف آئی اے کی حتمی رپورٹ کا انتظار کررہے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا یہ تاثر غلط ہے کہ واش رومز میں کیمرے نصب کئے گئے،تاہم یونیورسٹی میں کچھ کیمرے بغیر اجازت کے لگائے گئے،اگر سی سی ٹی وی ریکارڈ چوری کیا گیا تو یہ جرم ہے۔ ہم پھر دعا کرتے ہیں کہ یہ سب جھوٹ ہو اگر ایسا نہیں تو یہ بہت بڑا المیہ ہے۔ اس میں جو بھی ملوث ہے بلاتفریق کارروائی کی جائے۔

جامعہ بلوچستان کے وکیل اکرم شاہ ایڈووکیٹ نے کہا ہم ڈیپارٹمنٹل انکوائری شروع کریں گے۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان شہک بلوچ نے کہا و رجسٹرار اس میں ملوث ہے اسے نئی پوسٹنگ دے دی گئی ہے۔ جو لوگ انکے خلاف سامنے آنا چاہ رہے تھے اب وہ بھی پیچھے ہوگئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: بلوچستان یونیورسٹی: طلبہ کے لیے یونیفارم پہننا لازمی قرار دے دیا گیا

ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے نے کہا تفتیش میں سامنے آیا کہ ان کی کوئی ایس او پی موجود نہیں تھی، تفتیش مکمل کرنے دیں پھر ہی واضح کرسکتے ہیں۔ ہارڈسک فرانزک کیلئے بھجوائی  گئی ہیں، دو ہفتے میں رپورٹ مکمل کرلیں گے۔

جامعہ بلوچستان کے رجسٹرار نے کہا کہ یونیورسٹیوں کے احاطے میں ایف سی موجود نہیں،یہ معاملہ سینڈیکیٹ میٹنگ میں زیر غور لایا جائے گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا سیکیورٹی دیں مگر ادارے میں خوف کا ماحول نہ بنائیں،یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں بائیو میٹرک لگائیں تاکہ معلوم ہو کون آرہا کون جارہا۔ صرف بی ایس ہی نہیں تمام شعبہ جات میں یونیفارم متعارف کروائیں۔

چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ نے پروفیسر فرید اچکزئی سے کہا کیا آپ کی یونیورسٹی میں غیر متعلقہ لوگ آتے ہیں،

پروفیسر فرید اچکزئی نے جواب دیا  جی پہلے آتے تھے اب نہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا یونیفارم طبقاتی تفریق کو ختم کرے گا، اور چیک بھی رہے گا،جب سے یہ واقعہ ہوا ہے ہر شخص 50 بندوں کے ساتھ یونیورسٹی آتا ہے اور لیڈر بن جاتا ہے۔

پروفیسر فرید اچکزئی نے کہا ڈیڑھ سال قبل وی سی یونیورسٹی کو اس طرح کے خدشات سے آگاہ کیا، ہہ باتیں ہورہی ہیں کہ شاید ملوث عناصر بچ نکلیں گے۔ الزامات کا شکار سابق وائس چانسلر کو لاہور کی یونیورسٹی کا ڈین لگادیا گیا ہے۔


متعلقہ خبریں