پارلیمنٹ کا لاک ڈاؤن کیا جارہا ہے، ایوان صدر کو ارڈیننس فیکٹری بنا دیا گیا ہے، رضا ربانی

چئیرمین سینیٹ کون؟ ن لیگ، پیپلزپارٹی یا پی ٹی آئی | urduhumnews.wpengine.com

اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کو لاک ڈاؤن کیا جارہا ہے اور ایوان صدر کوارڈیننس فیکٹری بنا دیا گیا ہے۔

سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے دور میں این ایف سی ایوارڈ کا اجرا نہ ہونا، مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس نہ بلایا جانا اور صدر کی خاموشی ایک مجرمانہ غفلت ہے۔

سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ صدر پاکستان کو الیکشن کمیشن کے ممبران کی غیر آئینی تقرری نہیں کرنی چاہیے تھی۔ صدر پاکستان کو پارلیمنٹ سے مسترد ہونے والی قانون سازی کو آرڈنینس سے ذریعے جاری نہیں کرنا چاہیے تھا۔ کیا عزت رہ گئی جب الیکشن کمیشن ارکان کے تقرر کا نوٹیفیکیشن عدالت نے کالعدم قرار دے دیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل بل پارلیمان نے مسترد کر دیا تھا مگر اس کے حوالے سے بھی صدارتی آرڈیننس جاری کردیا گیا۔

پی پی پی سینیٹر نے کہا کہ  موجودہ  حکومت بزنس فرینڈ لی ہےلیکن حکومت کو عوام خصوصا غریب کے مسائل کا کوئی ادراک نہیں۔ مشیر خزانہ نے ٹماٹر کی قیمت سترہ روپے کلو بتائی۔ مشیر خزانہ ٹماٹر کی قیمت سترہ روپے کلو بتانے پر بضد رہے۔

انہوں نے کہا کہ ریاست دہرے معیار کا مظاہرہ کر رہی ہے، ریاست ساتھ چلنے والے سیاستدانوں کے ساتھ ایک سلوک مخالف سوچ رکھنے والوں کے ساتھ دوسرا رویہ رکھتی ہے۔

سینیٹر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ سابق آمر جنرل پرویز  مشرف کو عدالت لے جاتے ہوئے سی ایم ایچ لے جایا گیا اور بعد میں نام ای سی ایل سے نکال کر دبئی علاج کیلئے بھجوایا گیا۔ دبئی سے سابق صدر پرویز مشرف کی مختلف ویڈیوز سوشل میڈیا کی زینت بنیں۔

انہوں نے کہا کہ سابق صدر آصف زرداری تاحال سزا یافتہ نہیں ہیں لیکن انہیں نجی ڈاکٹرز تک رسائی نہیں دی جا رہی ہے۔

سینیٹر ربانی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کے بیان پر غداری کا مقدمہ درج کرنے کی بات کی گئی۔ موجودہ حکمرانوں نے ماضی میں وزیراعظم سے متعلق کیا کچھ نہیں کہا۔ ماضی میں سیاستدانوں کو غدار اور بینظیر بھٹو اور نواشریف کو سیکورٹی رسک قرار دیا گیا۔ سابق وزیر اعظم سے شورٹی بانڈ مانگ کر دہرا معیار اختیار کیا گیا۔

سینیٹ میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بحث کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے سینیٹر بہرہ مند تنگی نے کہا کہ مودی سرکار نے کشمیر میں ظلم کی انتہا کر دی ہے۔ ہماری حکومت بتائے کشمیر کے حوالے سے ان کے پاس کیا پلاننگ ہے۔ حکومت  کشمیر کے معاملے پر اپوزیشن کو اعتماد میں لے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے پارلیمانی روایات سے کچھ نہیں سیکھا۔ آپ پارلیمانی روایات کو ختم کر چکے ہیں۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ حکمرانوں کی کشمیر کے ساتھ دلچسپی نہیں ہے۔ وزیرخارجہ اگر کشمیر سے دلچسپی رکھتے تو ایوان میں موجود ہوتے۔ وزیرخارجہ مختلف ٹی وی چینلز پر سابق وزیراعظم کے بیرون ملک جانے سے متعلق بیان دیتے نظر آئے۔

انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بارہ ربیع الاول کی تقاریب منعقد نہ ہو سکیں۔ کشمیریوں کو جب ولادت النبیؐ کی تقاریب سے روکا گیا تب ہم کرتارپور کی تقریب منعقد کر رہے تھے۔ طویل عرصے کے بعد مقبوضہ کشمیر کی درگاہ حضرت بل پر موئے مبارک کی زیارت نہ ہو سکی ہے۔

سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ میں مذہبی آزادی اور رواداری کا قائل ہوں، حکومت نے خوشنودی اور جھک جانے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ حکومت نے کوئی بات منوائے بغیر دو بھارتی پائلٹس رہا کئے۔

ن لیگی سینیٹر نے کہا کہ پاکستان طالبان کو میز پر لانے کیلئے کردار ادا کرے، لیکن دنیا سے کشمیریوں کیلئے میز سجانے کا مطالبہ کرے۔ ہم مہمانوں کو خود گاڑی چلا کر ایئرپورٹ سے گھر لاتے ہیں لیکن ہم مہمانوں سے کشمیر میں کرفیو کے خاتمے کیلئے کردار ادا کرنے کا نہیں کہہ سکتے۔

سینیٹر پرویز رشید نے پوچھا وزیراعظم اور وزیرخارجہ نے کشمیر سے کرفیو کے خاتمے کے مطالبے کیلئے کتنےغیر ملکی دورے کئے؟

انہوں نے کہا کہ دس دس سال تک دور آمریت سہنے والے ممالک میں اقتصادی استحکام نہیں آتے۔ ملک میں ترقی نواز شریف جیسے دوراندیش لیڈر کی قیادت میں آتی ہے ویژنری لیڈر شپ نے ملک کو پانچ سال میں اقتصادی طور پر مستحکم کیا ملک کو اندھیروں سے نکالا۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ملک میں ویژنری لیڈرشپ کا انجام پھانسی یا جلا وطنی ہے۔

انسانی حقوق کی وفاقی وزیر  شیریں مزاری  نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی قیادت کیساتھ تعلقات کی تاریخ میں گئی تو ایشو ہو گا۔یہ پہلی حکومت ہے جسکا کشمیر پر بیانیہ دنیا بھر میں سنا گیا۔ پہلی مرتبہ دہشتگردی کا الزام پاکستان کی بجائے بھارت پر لگ رہا ہے۔

شیریں مزاری  نے کہا کہ پچاس سال بعد سلامتی کونسل نے کشمیر پر بات تو کی۔ عالمی اداروں کی کشمیر پر اتنی رپورٹس کبھی نہیں آئیں۔ کشمیر پر خاموشی اختیار کرنے کا الزام بے بنیاد ہے۔

وفاقی وزیر کی تقریر کے دوران حزب اختلاف کے اراکین نے احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔

چیئرمین سینیٹ نے سینیٹر سجاد طوری اور سینیٹر فدا محمد کو اپوزیشن ارکان کو منانے کے لیے بھیج دیا۔ سجاد طوری اور فدا محمد اپوزیشن اراکین کو منا کر ایوان میں واپس لائے۔

خطاب جاری رکھتے ہوئے شیریں مزاری نے کہا کہ دنیا نے پہلی مرتبہ تسلیم کیا کہ کشمیریوں کی نسل کشی ہو رہی ہے۔ یہ بیانیہ حکومتی کوششوں سے دنیا نے تسلیم کیا۔ اپوزیشن ساتھ دے تو کشمیر کا معاملہ اور بہتر انداز میں آٹھ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ وزارت انسانی حقوقِ نے کشمیر کی صورتحال پر اقوام متحدہ کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بھارت کی جانب سے بالا کوٹ میں سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ بھارتی قیادت نیوکلیئر دھمکیاں دے رہی ہے۔

پاکستان نے نہ صرف بالا کوٹ سٹرائیک کو ناکام بنایا۔ ہمارے پاس اپنی مرضی کے وقت اور جگہ پر جواب دینے کی صلاحیت ہے۔

پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا بتایا جائے کشمیر کمیٹی نے ماضی میں کیا کام کیا اور اس پر کتنا خرچہ آیا۔ کشمیر کے معاملے پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی بجائے متحد ہونے کی ضرورت ہے۔

پی پی پی سینیٹر رحمن ملک نے کہا کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے میں بھارت سمیت دیگر غیر ملکی ایجسنیز شامل رہی ہیں۔ ایف اے ٹی آیف کے آنے سے معاشی حالات خراب ہوے۔ مہنگائی کے باعث ہر کوئی رو رہا ہے۔ انہوں نے کہا میں کیا اس خالی ایوان کو سناوں، ساری کرسیاں خالی پڑی ہیں۔

سینیٹر رحمان ملک نے بھارتی وزیر اعظم کو دہشتگردوں کا چیف قرار دیدیا۔ جب تک ہم جارحانہ رویہ اختیار نہیں کرینگے ہمارے ساتھ یہی حال ہوگا۔ جب تک ہم گرے لسٹ سے نہیں نکلتے آئی ایم ایف کچھ نہیں دے گا

انہوں نے کہا کہ ہمیں کشمیر کے معاملے کو اقوام متحدہ میں سنجیدگی سے اٹھانا ہوگا۔ پوری دنیا میں ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کشمیر کے معاملے پر دو قراردادیں پیش کرنی تھیں،

چیئرمین سینیٹ کا متعلقہ وزرا ، وزارت کے افسران کا ایوان میں موجود نہ ہونے پر اظہار برہمی کا اطہار کیا۔ انہوں نے رولنگ دی کہ معاملے پر وزیر اعظم کو خط لکھا جائے۔

چیئرمین سینیٹ نے  قائد ایوان شبلی فراز کو ہدایت کی کہ وزیراعظم کو لکھیں کہ وزراء کی حاضری یقینی بنائیں۔  شبلی فراز نے کہا اس معاملے پر بات اچانک شروع کی گئی ہے۔ متعلقہ وزراء کو پیغام بھیج دیا گیا ہے۔

ن لیگی سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ حکومت آئی تو سوچا پارلیمان کو اہمیت دی جائیگی۔ بد قسمتی ہے کہ حکومت ایوان کو بائی پاس کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت پارلیمنٹ سے قانون سازی کیوں نہیں کرتی، اس ایوان کا کیا کام ہے۔ آرڈیننس سے ملک کو چلایا جا رہا ہے۔ سب سے بڑا جرم جو حکومت نے کیا ہے کہ پی ایم ڈی سی کو تحلیل کیا۔

جس بل کو سینٹ نے مسترد کیا تھا حکومت اسے آرڈیننس کی صورت میں لے آئی ہے۔ اگر عدالت کے ساتھ ایسا ہوتا تو توہین عدالت ہوتی لیکن یہ پارلیمنٹ کے ساتھ مذاق کیا ہے۔ صدر کو مس گائیڈ کر کے آرڈیننس جاری کروائے جا رہے ہیں۔ رات کی تاریخی میں پی ایم ڈی سی کو تالے لگا دیئے گئے۔ نجی کالجوں کے مالکان کہ خواہش پر ہدایات جاری کی جاتیں ہیں۔

سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ آپ اپوزیشن کو دشمن سمجھ رہے ہیں اور جیلوں میں ڈال رہے ہیں، لیکن کم از کم پارلیمنٹ کو بے توقیر نہ کریں۔ آپ بل لائیں ہم اچھے قوانین کی حمایت کریں گےاور مدد کریں گے۔

لیگی سینیٹر نے کہا کہ لیکن یہ فیصلہ کریں کہ آپ نے پارلیمان کو عزت دینی ہے یا ملک کو آرڈیننس کے ذریعے چلانا ہے؟ حکومت نے وزیر یہاں دکھانے کے لیے بٹھائے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 10 لاکھ سے زائد لوگ بیروزگار ہو چکے ہیں۔ مگر یہ حکومت نہیں چلنے والی یہ جو بھی کر لیں۔ ہم سب کو جیلوں میں ڈال دیں پھر بھی یہ کمپنی نہیں چلنے والی۔ یہ وزراء نمائشی ہیں اصل طاقت غیر منتخب لوگوں کے پاس ہے۔ وہ غیر منتخب لوگ کسی اور کے کہنے پر آئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں نواز شریف اور آصف زرداری کے علاج سے متعلق چیئرمین سینیٹ کی رولنگ

سینیٹر کبیر محمد شاہی نے کہا کہ موجودہ حکومت آرڈیننس پر حکومت چلا رہی ہے اور ایوان میں  کہا جا رہا ہے کہ کچھ نہیں ہوا۔ آرڈیننس کے تحت پی ایم ڈی سی کو ختم کرنا بہت زیادتی ہے

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے کہا مشکل مراحل سے نکل گئے ہیں۔ مشکل مراحل سے کیسے نکلے ہیں، تباہی کے دہانے پر ہیں۔ شرح نمو 2 اعشاریہ 8 ہے جو کہ افغانستان سے بھی نیچے ہے۔

ن لیگ کے سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ ایک سیکنڈ ضائع کئے بغیر نواز شریف کو بیرون ملک بھیجا جائے۔ بیماری کسی کے گھر بھی آ سکتی ہے۔ انہیں معلوم نہیں کہ یہ لوگ کس کی جان سے کھیل رہے ہیں۔ نواز شریف کا جرم صرف پاکستان سے محبت ہے

انہوں نے کہا کہ معلوم نہیں چھ روز تک مثبت باتیں کرنے والوں کو ں اچانک کیا ہو گیا ہے۔ انہیں پتا ہی نہیں یہ کر کیا رہے ہیں۔

اجلاس کے دوران سابق سینیٹر سید دلاور عباس کی وفات پر سینیٹ میں دعائے مغفرت کرائی گئی اور تعزیتی قررداد منظور کی گئی۔

سینیٹ کا اجلاس کل صبح ساڑھے 10 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔


متعلقہ خبریں