دہشت گردوں کو کوئی اچھا نہیں کہہ سکتا،ان کے ساتھ سختی سے نمٹنا ہوگا، چیف جسٹس پاکستان

سرکاری اسکول میں اعلی تعلیم ، فری یونیفارم اور دودھ کا گلاس دیا جائے، چیف جسٹس پاکستان

اسلام آباد: آج سپریم کورٹ میں فاٹااورپاٹا ایکٹ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ زیر حراست افراد کی تفصیلات عام نہیں کر سکتے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا  بتایا جائے 2019 کا آرڈیننس لانے کی وجہ کیا تھی؟ ٹھوس وجہ سامنے نہ آئی تو گڑبڑ ہو جائے گی۔ ہوسکتا ہے حراستی مراکزنظریہ ضرورت کے تحت بنائے گئے ہوں۔

جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا پاکستان کو دشمن ممالک نے ٹارگٹ کر رکھا ہے دیکھنا ہے کہ اقدامات آئین کے اندر ہیں یا نہیں؟دہشت گردوں کو کوئی اچھا نہیں کہہ سکتا۔ان کے ساتھ سختی سے نمٹنا ہوگا۔ 

فاٹا پاٹا ایکٹ کیس کی  سماعت  کے دوران چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے استفسارکیا کہ  تین دن سے پوچھ رہے ہیں نئے آرڈیننس کی وجہ کیا ہے؟

دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ایکشن ان ایڈ آف سول پاورآرڈیننس ایکٹ 2019 کی معیاد پوری ہوچکی، ممکن ہے فساد ختم ہوگیاہولیکن شرپسند باقی ہوں اگر پہلے سے رائج قوانین جاری تھے تونیا آرڈیننس کیوں آیا؟

فوج کی موجودگی برقرار رکھنا مقصد تھا توفوج پہلے سے موجود تھی ،اگرتمام قوانین ختم ہوچکے توحکومت کو ڈومورکرنا ہوگا۔

جسٹس مشیرعالم کا کہنا تھا کہ آرڈیننس میں لکھا ہے شرپسند ملک کے وفادارنہیں رہے، کیا شرپسند پہلے وفادار تھے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے قوانین میں بھی یہی الفاظ استعمال کئے گئے۔

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ آرڈیننس میں شرپسندوں کےلیے مسکریئنٹس کا لفظ استعمال کیاگیا۔ڈکشنری کے مطابق اس کا مطلب کافریا یقین نہ کرنے والا ہے،حکومت شاید آرڈیننس کے ذریعے نئی انگلش بھی ایجاد کررہی ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 25 ویں آئینی ترمیم کے بعد راتوں رات حقائق تبدیل نہیں ہوسکتے۔فوج ان افراد سے لڑ رہی جویہاں دہشت گردی کے لیے گھسے۔وہ عدالت کو قائل کریں گے کہ حراستی مراکزغیر آئینی نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دہشت گردوں کو کوئی اچھا نہیں کہہ سکتا۔ان کے ساتھ سختی سے نمٹنا ہوگا،فیصلہ صرف حراستی مراکز کی آئینی حیثیت سے متعلق کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فاٹا ایکٹ 2019 اور پاٹا ایکٹ 2018 کے معاملے پر سپریم  کورٹ کا لارجر بینچ تشکیل

جسٹس گلزاراحمد نے استفسار کیا کہ کیا اداروں کے پاس زیرحراست افراد کے غیرریاستی ہونے کے شواہد ہیں؟

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تمام تفصیلات اورشواہد موجود ہیں۔ایک حراستی مرکز میں پہلے مہینے 78 افراد کورکھا گیا۔2 سال بعد تمام افراد کو رہا کردیا۔عدالت نے سماعت 20 نومبر تک ملتوی کردی۔


متعلقہ خبریں