نواز شریف کو غیر مشروط طور پر بیرون ملک جانے کی اجازت مل گئی


لاہور: لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف کو غیر مشروط طور پر 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک علاج کے لیے جانے کی اجازت دیتے ہوئے نام ای سی ایل سے نکال دیا۔

جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس سردار احمد نعیم پر مشتمل ہائی کورٹ کا دو رکنی بینچ سابق وزیراعظم نواز شریف کا نام غیرمشروط طور پر ای سی ایل سے نکالنے کی شہباز شریف کی درخواست پر سماعت کی۔ جس میں وفاقی حکومت اور وزارت داخلہ سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔

اس سے قبل وفاقی حکومت نے ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے ڈرافٹ میں کہا تھا کہ نواز شریف بیرون ملک علاج کے لیے جاسکتے ہیں لیکن اگر آٹھ ہفتوں کی معیاد ختم ہوگئی تو دوبارہ اجازت دینے کا معاملہ حکومت ہی دیکھے گی۔

عدالت کی جانب سے تیار کردہ ڈرافٹ کی کاپی وفاقی وکیل اور شہباز شریف کے وکلا کو فراہم کردی گئی۔ جس کے بعد وفاقی وکیل نے ڈرافٹ کا جائزہ لیا۔ سرکاری وکیل نے عدالتی ڈرافٹ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی ڈرا فٹ میں کسی قسم کی ضمانت نہیں مانگی گئی۔

عدالتی ڈرافٹ کے متن کے مطابق عدالت نے نئے بیان حلفی میں نواز شریف کو بیرون ملک علاج کے لیے 4 ہفتے کا وقت دیا ہے اور اگر نواز شریف کی صحت بہتر نہیں ہوتی تو اس مدت میں توسیع ہوسکتی ہے جبکہ حکومتی نمائندہ سفارتخانے کے ذریعے نواز شریف سے رابطہ کرسکے گا۔

عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے عدالتی ڈرافٹ پڑھا ہے ؟ آپ کو ڈرافٹ پر کون کون سے تحفظات ہیں ؟ جس پر سرکاری وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ہمیں ڈرافٹ پر کچھ تحفظات ہیں۔

سرکاری وکیل نے کہا کہ بیان حلفی پر عمل نہیں ہوتا تو کیا ہو گا ؟

عدالت نے کہا کہ پھر توہین عدالت کی کارروائی کا اختیار موجود ہے۔ صبح سے شام ہوگئی لیکن ابھی تک اتفاق رائے نہیں ہوا ہے۔

سرکاری وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے خلاف عوامی پیسے پر کرپشن کے مقدمات ہیں۔

عدالت نے نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دیتے ہوئے حکم دیا کہ شہباز شریف اور نواز شریف علاج کے لیے بیرون ملک جائیں گے۔

عدالتی فیصلے کے بعد شہباز شریف نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پوری قوم کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ عدالت نے انسانی بنیادوں پر نواز شریف کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ نواز شریف کی صحت بہتر نہ ہونے پر مدت میں توسیع کی درخواست بھی دے سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو فوری علاج کی ضرورت ہے۔ وہ علاج کے بعد فوری طور پر پاکستان واپس آئیں گے۔

لیگی وکلاء کی جانب سے عدالتی ڈرافٹ پر رضا مندی کا اظہار کیا گیا۔ ایڈووکیٹ اشتر اوصاف نے کہا کہ عدالتی ڈرافٹ نے ہمارے مؤقف کی تائید کی ہے جبکہ عطا تارڈ نے کہا کہ معمولی سی تبدیلی کی تجویز کی ہے۔

وفاقی حکومت کے نمائندے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان عدالت میں بیان دیا کہ نوازشریف علاج کے لیے ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں تو حکومت کو کوئی اعتراض نہیں تاہم انہیں عدالت کو مطمئن کرنا ہوگا۔

وفاقی حکومت نے سیکیورٹی بانڈ(زرضمانت) لاہور ہائیکورٹ میں جمع کرانے کی پیشکش کی جس پر شہبازشریف کے وکیل نے اپنے موکل سے مشاورت کرنے کے لیے وقت طلب کیا۔

عدالت نے نوازشریف کو بحیثیت تین بار وزیراعظم اور شہبازشریف کو بحیثیت سابق وزیراعلیٰ پنجاب بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

میاں برادران کا بیان حلفی

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے نواز شریف اور شہباز شریف کے بیان حلفی تیار کیا جس میں عدالتی کو یقین دہانی کرائی گئی کہ سابق وزیراعظم صحت مند ہوتے ہی وطن واپس آئیں گے۔

دو صفحات پر مشتمل بیان حلفی کے متن میں درج ہے کہ نواز شریف واپس آکر اپنے عدالتی کیسز کا سامنا کریں گے۔ بیان حلفی میں شہباز شریف نے کہا میں گارنٹی دیتا ہوں کہ نواز شریف صحت یاب ہوتے ہی وطن واپس آئیں گے۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ بیان حلفی عدالت میں پڑھ کر سنایا جس پر جج نے حکومتی نمائندے سے استفسار کیا کہ آپ کا کیا موقف ہے۔

دو صفحات پر مشتمل بیان حلفی کے متن میں درج ہے کہ نواز شریف واپس آکر اپنے عدالتی کیسز کا سامنا کریں گے۔ بیان حلفی میں شہباز شریف نے کہا میں گارنٹی دیتا ہوں کہ نواز شریف صحت یاب ہوتے ہی وطن واپس آئیں گے۔

ایڈوکیٹ اشتر اوصاف نے بیان حلفی عدالت میں پڑھ کر سنایا جس پر جج نے حکومتی نمائندے سے استفسار کیا کہ آپ کا کیا موقف ہے۔

حکومتی اعتراض

ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان نے کہا ہمیں اس ڈرافٹ پر اعتراض ہے، اس میں نہیں لکھا گیا کہ نواز شریف کب جائیں گے اور کب آئیں گے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے خاص مدت کے لیے نواز شریف کی ضمانت منظور کی ہے۔

حکومتی وکیل نے کہا کہ 25 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کیس کی مرکزی اپیل بھی مقرر ہے جس میں سابق وزیراعظم عدالت کے سامنے پیش ہونا ہے۔

وفاق کے وکیل نے موقف اپنایا اگر نواز شریف نہیں آتے تو کیا ہو گا؟ اس لیے اینڈیمنٹی بانڈ  مانگے گئے ہیں۔ اگر ان کی غیر موجودگی میں کیس کا فیصلہ آگیا تو اس سے متعلقہ کیا کیا جاے گا ن لیگ کے ڈرافٹ میں نہیں بتایا گیا۔

حکومتی ڈرافٹ

وکیل وفاقی حکومت کے مطابق نوازشریف کو مزید اجازت میڈیکل رپورٹس سے مشروط ہوگی۔ نواز شریف کے بیان حلفی میں شامل ہو کہ جو بھائی شہباز نے گارنٹی دی اس کو تسلیم کرتے ہیں۔

نواز شریف طبی بنیادوں پر بیرون ملک جائیں گے،  جب بھی نواز شریف کو ڈاکٹر فٹ قرار دیں گے وہ واپس آئیں گے، وفاقی حکومت جب چاہے گی نواز شریف کو واپس آنا ہو گا۔ شہباز شریف بیان حلفی دیں کہ نواز شریف واپس نہیں آتے تو جرمانے کی رقم ادا کریں گے۔

عدالتی ریمارکس

جج نے نوازشریف کا علاج بیرون ملک ہوگا حکومتی نمائندے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اپ کی طرف سے جو اعتراض لگایا گیا کہ نوازشریف ملک واپس نہیں آئیں گے۔

عدالت نے کہا اگر آٹھ ہفتوں میں ضمانت کی میعاد ختم ہوجاے توعدالت ہی اسےدیکھے گی۔

جج نے کہا کہ نواز شریف کا بیان حلفی مناسب لگ رہا ہے لیکن میاں شہباز شریف کے بیان حلفی میں سہولت کار کا لفظ ٹھیک نہیں، آپ اس لفظ کی تبدیلی کا حکم دیں، سہولت کار کی  بجاے یقینی دہانی کا لفظ شامل کیا جائے۔

عدالت نے وفاقی حکومت کے وکیل کو ہدایت کی کہ کل اپ کو پتہ چلے کہ نواز شریف شاپنگ کر رہے ہیں، برگر کھا رہےہیں تو اپ درخواست دائر کریں گے۔

جج نے ریمارکس دیے کہ جو شرائط حکومت نے لگائی ہے ہمیں اس کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے۔

عدالت نے حکومتی ڈرافٹ پر سوال کیا اگر نواز شریف زیر علاج ہوئے تو وفاق نے طلب کر لیا تو پھر کیا ہو گا؟


متعلقہ خبریں