برطانیہ کا 23 روسی سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم


لندن: برطانیہ میں مبینہ جاسوس پر قاتلانہ حملے کے بعد برطانیہ نے روس کے 23 سفارت کاروں کو ملک سے نکالنے کا اعلان کیا ہے۔

گذشتہ دنوں انگلینڈ کے شہر سالسبری میں ایک جاسوس (ڈبل ایجنٹ – ایک ہی وقت میں دو فریقوں کے لیے کام کرنے والا جاسوس) کو اعصابی گیس کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ حملے کے بعد سے سابق روسی جاسوس سرگئی سکریپل اور ان کی بیٹی یولیا کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔

وزیر اعظم تھریسا مے نے حملے کے پسِ پردہ عناصر کی وضاحت نہ دینے پر روسی سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا گیا ہے۔ برطانوی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ”یہ تمام سفارت کارغیراعلانیہ طور پرانٹیلی جنس آفیسرز ہیں۔”

برطانوی وزیراعظم نے ناصرف روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کے دورہ برطانیہ کی دعوت منسوخ کردی۔ اس کے علاوہ روس میں منعقد ہونے والے ” فیفا ورلڈ کپ” میں برطانوی شاہی خاندان کی شرکت سے بھی انکار کردیا۔

اس سے قبل برطانیہ نے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں کہا تھا کہ ”روس نے انگلینڈ کے پرامن شہر میں ایسے ہتھیار کا استعمال کیا ہے جسے جنگوں میں بھی ممنوع قرار دیا جاچکا ہے۔”

برطانیہ کےنائب سفیر جوناتھن ایلن نےالزام عائد کیا تھا کہ ماسکو نے کیمیائی ہتھیاروں پر پابندی کے کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ روس کی جانب سے لاحق خطرات کے بارے میں جانتے تھے لیکن اسے روکا نہیں جاسکا۔

جوناتھن ایلن نے کا کہنا تھا کہ ‘ہم اقوام متحدہ میں اکثریت کی جانب سے طے کی جانے والی اقدار کے ساتھ کھڑے ہیں، ان کا احترام کرتے ہیں اور آج ہم آپ سے ساتھ دینے کی اپیل کرتے ہیں۔’

جواب میں اقوام متحدہ میں روسی سفیر واسِلے نبینزیا نے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے برطانیہ سے ثبوت طلب کیے تھے۔

روسی سفیر کا کہنا تھا کہ ”ہم کسی سے بھی انتباہی انداز میں بات نہیں کرتے اور نا کسی کو اس طرح بات کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔”

سابق ایجنٹ اور اس کی بیٹی کو زہر دینے کے برطانوی الزام کو روس نے مسترد کردیا تھا۔

برطانیہ نے روس کو سابق ڈبل ایجنٹ پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی وضاحت کے لیے منگل کی رات تک کا وقت دیا تھا، جو گزر چکا ہے۔

برطانیہ کی وزیراعظم تھریسامےنے الزام عائد کیا ہے کہ انگلینڈ میں سابق ایجنٹ کو دیا جانےوالا اعصاب شکن مواد روس میں تیار کیا گیا ہے۔ امریکا نے بھی واقعہ میں روس کے ملوث ہونے کی تائید کی ہے۔

ماسکو کا موقف اور ردعمل:

روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا نے ٹوئٹر پر پیغام دیا کہ ” تھریسامے نے سرگئی لاروف کو دی گئی دعوت واپس لے لی ہے لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ لاروف نے ان کی دعوت قبول ہی نہیں کی تھی۔”

دوسری جانب  روسی حکومت نے برطانیہ کے اقدام کی مذمت کی ہے جب کہ لندن میں روسی سفارت خانے سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ  برطانوی بیانات جارحانہ، ناقابل قبول اور غیر منطقی ہیں۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ  برطانوی رہنما دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہونے کے ذمہ دار ہیں۔


متعلقہ خبریں