آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع، کل تک اس معاملے کا حل نکالیں، چیف جسٹس



اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ وزیراعظم نے آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کا مشورہ دیا لیکن نوٹیفکیشن میں توسیع دی گئی، کسی نے سمری اور نوٹیفکشن پڑھنے کی بھی زحمت نہیں کی۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست پر سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی میں جنرل خود کو دس دس سال توسیع دیتے رہے، اب معاملہ ہمارے پاس آیا ہے تو طے کر لیتے ہیں، ہم قانون کو دیکھیں گے شخصیت کو نہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی اہم معاملہ ہے، اس میں سب کی بات سنیں گے، یہ سوال آج تک کسی نے نہیں اٹھایا، اگر سوال اٹھ گیا ہے تو اسے دیکھیں گے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل منصور علی خان سے دریافت کیا کہ کیا ایکٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا ذکر ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ مدت ملازمت میں توسیع کی گنجائش موجود ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے دوبارہ کہا کہ آپ جس کی رولز میں موجودگی کا ذکر کر رہے ہیں وہ ایکٹ بھی دکھائیں۔

انہوں نے استفسار کیا کہ اگر میں پاک فوج میں افسر بن جاتا ہوں تو کہ تاحیات کمیشنڈ افسر کہلاؤں گا؟

چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں مدت اور دوبارہ تعیناتی کا ذکر نہیں، اسی طرح ان کی مدت ملازمت میں توسیع کا ذکر بھی ایکٹ میں موجود نہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ مدت ملازمت کا ذکر رولز میں ہے ایکٹ میں نہیں۔

اٹارنی جنرل نے کابینہ کی نئی سمری عدالت میں پیش کی اور موقف اپنایا کہ عدالت کو آرمی رولز کی شق 255 اورآئین کی شق 243 کو الگ الگ دیکھنا ہوگا۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ ‏ازسرنو توسیع سے متعلق قانون دکھائیں جن پرعمل کیا۔ حکومتی وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ‏رول 19 کے مطابق جواب نہ آنے کا مطلب ہاں ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ لیفٹیننٹ جنرل کی ریٹائرمنٹ کی عمر 57 سال ہے لیکن اس رول میں آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کی مدت کا ذکر نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ ان کی ریٹائرمنٹ نہیں ہوسکتی، یہ تو بہت عجیب بات ہے۔

حکومتی وکیل  نے عدالت کو آگاہ کیا آئین کی شق 243 کے تحت وفاقی حکومت کو مدت ملازمت میں توسیع کا اختیار ہے اور اس میں دوبارہ ملازمت میں توسیع دینے کی بھی بات کی گئی ہے۔

حکومت نے جو ترمیم کی ہے وہ آرمی چیف سے متعلق نہیں۔ چیف جسٹس

بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے آرٹیکل 255 جس پر آپ انحصار کررہے ہیں وہ تو صرف افسران کے لیے ہے۔ جس میں آپ نے ترمیم کی وہ تو آرمی چیف سے متعلق ہے ہی نہیں، یہ آرٹیکل تو صرف افسران سے متعلق ہے۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا کہ کل ہم نے جو نکات اٹھائے تھے آپ نے انھیں تسلیم کیا، اسی لیے انھیں ٹھیک کرنے کی کوشش کی گئی۔

اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا کہ ہم نے ان غلطیوں کو تسلیم نہیں کیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے دریافت کیا کہ کیا رولز پر بحث کے لیے وقت دیا گیا؟

اٹارنی جنرل نے مثبت میں جواب دیا کہ ارکان کو وقت دیا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں دکھائیں کہ کابینہ نے کل کیا منظوری دی ہے، ہم نے تو مواد دے کر فیصلہ لکھا تھا۔

میڈیا کو سمجھ نہیں آئی ازخود نوٹس نئیں لیا۔ ہم کیس ریاض راہی کی درخواست ہر ہی سن رہے ہیں۔ چیف جسٹس

حکومت کے وکیل منصورعلی خان نے موقف اپنایا کہ آرٹیکل 255 میں ایک ایسا لفظ ہے جو اس معاملے کا حل ہے، اس آرٹیکل میں حالات کے تحت اگر ریٹائرمنٹ نہ دی جاسکے تو دو ماہ کی توسیع دی جاسکتی ہے۔

بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ اگر جنگ ہو رہی ہو تو پھر آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ میں عارضی تاخیر کی جا سکتی ہے۔

جب وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ رینک اور تقرری دو مختلف چیزیں ہیں، جنرل فوج کا ہی جرنیل ہوتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارے سامنے سوال چیف کا ہے، جنرل کا نہیں۔ 243 کے تحت وزیراعظم کے پاس تعیناتی کا اختیار ہے لیکن ہم نے یہاں مدت کا معاملہ دیکھ رہے ہیں۔

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا ایک ریٹائرڈ فوجی افس کو آرمی چیف مقرر کیا جا سکتا ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پہلے قانون کو دیکھیں گے، ہمارے سامنے شخصیت نہیں قانون اہم ہے۔

درخواست گزار سے چیف جسٹس کا مکالمہ

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست دینے والے ریاض حنیف راہی بھی عدالت میں پیش ہو گئے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ راہی صاحب آپ کہاں رہ گئے تھے، کل آپ نہیں آئے لیکن ہم نے آپ کی درخواست زندہ رکھی۔

درخواست گزار نے کہا کہ حالات مختلف پیدا ہو گئے ہین جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ہم انہی حالات میں آگے بڑھ رہے ہیں، آپ تشریف رکھیں۔

سماعت کے دوران بیرسٹر فروغ نسیم بھی روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ میرا لائسنس بحال ہے۔ اٹارنی جنرل جو چیئرمین بار کونسل تھے انہوں نے لائسنس بحال کیا تھا جبکہ بار کونسل والوں نے میرا لائسنس معطل کرنے کی کوشش کی۔ میرے پاس تمام آرڈرز موجود ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے بیرسٹر فروغ نسیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے ساتھ کوئی جونیئر لے کر آئیں جو بحث کر سکے۔ جسٹس منٖصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ فروغ نسیم آپ کے معاملے کو سنا تو پھر دونوں اطراف کو ہی سننا پڑے گا۔

فروغ نسیم نے مؤقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ کا آرڈر موجود ہے کہ میرا وکالت کا لائسنس معطل نہیں کیا جاسکتا۔

عدالت نے سماعت کل صبح تک کے لیے ملتوی کر دی۔

معاملہ کیسے شروع ہوا۔۔۔

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست جیورسٹ فاؤنڈیشن کی جانب سے دائر کی گئی تھی جس میں سیکریٹری دفاع اور دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔

اٹارنی جنرل اور فروغ نسیم حکومت کی جانب سے عدالت میں پیش ہوئے جب کہ درخواستگزار ریاض حنیف راہی بھی عدالت میں موجود ہیں۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ بینچ میں جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس منصور علی شاہ بھی شامل ہیں۔

واضح رہے کہ رواں سال 19 اگست کو جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کی گئی تھی۔

وزیراعظم آفس سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے موجودہ مدت مکمل ہونے کے بعد سے جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید 3 سال کے لیے آرمی چیف مقرر کردیا۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا آرمی چیف کی مدت میں توسیع کا فیصلہ علاقائی سیکیورٹی کی صورتحال کے تناظر میں کیا گیا۔


متعلقہ خبریں