حکومت کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں چھ ماہ کی توسیع کی اجازت مل گئی



اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی توسیع کرنے کی اجازت دی ہے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ریاض حنیف راہی کی آرمی چیف کی مدت ملازمت کیخلاف درخواست پر سماعت کی۔ جسٹس منصورعلی شاہ اورجسٹس مظرعالم میاں خیل بھی بینچ میں شامل تھے۔

حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل منصورعلی خان اور سابق وفاقی وزیرقانون فروغ نسیم نے دلائل دیے۔

فیصلہ

چیف جسٹس کی سربراہی میں سماعت کرنے والے بینچ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے تحریری فیصلہ جاری کر دیا جو 3 صفحات پر مشتمل ہے۔ تحریری فیصلے کے مطابق وفاقی حکومت نے بیان حلفی دیا ہے کہ وہ قانون سازی شروع کرے گی۔

آرمی چیف کا عہدہ فوج کی کمانڈ، تربیت اور نظم وضبط کے لیے اہم ہے، ہم یہ معاملہ پارلیمنٹ اور وفاقی حکومت پر چھوڑتے ہیں۔ آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ پارلیمنٹ کے ذریعے آئین کی شق 243 کے تحت حل کیا جائے تاہم آرمی چیف آج سے مزید 6 ماہ کے لیے اپنے عہدے پر رہ سکتے ہیں۔

فیصلے میں لکھا گیا کہ پارلیمنٹ مدت کا تعین اور دیگر ضابطے طے کرے۔

فیصلے میں لکھا کہ عدالت کے سامنے  آرٹیکل 243 اور آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ آیا اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن جمع کرایا گیا۔ فیصلے کے مطابق عدالت نے 243بی، آرمی ایکٹ اور اس کے رول کا بھی جائزہ لیا گیا۔ ہمارے سامنے یہ سوال آیا کہ کیا توسیع دی جاسکتی ہے یا نہیں۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ اٹارنی جنرل نے عدالتی سوالوں کا جواب دیا، جمع کرائی گئی دستاویزات کے مطابق پاک آرمی کا کنٹرول وفاقی حکومت سنبھالتی ہے جب کہ چیف آف آرمی اسٹاف کا تقرر صدر وزیراعظم کی مشاورت سے کرتا ہے۔

فیصلے کے متن میں درج ہے کہ عدالت میں آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کے حوالے سے قانون خاموش ہے۔ حکومت نے مسلح افواج کے قوانین میں ترامیم کمےلیے 6 ماہ کا وقت مانگا۔

تین رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ہم معاملہ پارلیمنٹ اور حکومت پر چھوڑتے ہیں اور اس وقت آرمی چیف کی تقرری 6 ماہ کے لیے ہوگی۔ چھ ماہ بعد عدالت آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کے متعلق قوانین کا دوبارہ جائزہ لے گی۔

فیصلے کے مطابق موجودہ  آرمی چیف کو آج مورخہ 28 نومبر 2019 سے توسیع دی جا رہی ہے اور حکومت آئندہ 6 ماہ میں قانون سازی کرے اور چھ ماہ بعد قوانین کو دوبارہ دیکھا جائےگا۔

دوران سماعت سابق وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ حکومت آرٹیکل 243 میں بہتری کر لے گی، حلفیہ بیان دیتے ہیں کہ آرٹیکل 243 میں تنخواہ، الاؤنس اور دیگر معاملات شامل کریں گے اور اس کا تحریری بیان حلفی بھی دینے کے لیے تیار ہیں۔

قبل ازیں چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیں بیان حلفی دیں کہ 6 ماہ میں قانون میں ترمیم کردیں گے اور یہ ترمیم چیف آف آرمی اسٹاف کی تقرری، دوبارہ تعیناتی اور توسیع سے متعلق ہوگی۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو نئی سمری تیار کرنے کے لیے دو گھنٹے کا وقت دیا تھا۔ انہوں نے ہدایت کی کہ آج ہی سمری لے آئیں اور تین نقاط کا بھی خیال رکھیں، سمری سے سپریم کورٹ کا ذکرختم کریں، تین سال کی مدت کو بھی ختم کریں اور چھ ماہ میں قانون سازی کرنے کا بیان حلفی دیں۔

سپریم کورٹ کی جانب سے طلب کرنے پر راحیل شریف اور اشفاق پرویزکیانی کی ریٹائرمنٹ کی دستاویزات بھی پیش کی گئیں۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل نے بینچ کو آگاہ کیا کہ آرٹیکل 243 کےتحت آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کردی گئی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نوٹیفکیشن تو وہ دستاویز ہوتا ہے جو غلطیوں سے پاک ہونا چاہیے، جن لوگوں نے ملک کی خدمت کی وہ ہمارے لیے محترم ہیں لیکن آئین اورقانون سب سے مقدم ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آج ہونے والی تعیناتی پہلے سے کیسے مختلف ہے؟ حکومتی وکیل نے بتایا کہ نئی تعیناتی آرٹیکل 243 ون بی کے تحت کی گئی ہے۔

’اپنا بوجھ خود اٹھائیں‘

چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے ہمیں بتایا گیا کہ جنرل کبھی ریٹائر نہیں ہوتے، اگر ریٹائر نہیں ہوتے تو پینشن بھی نہیں ہوتی۔

بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ اپنا بوجھ خود اٹھائیں، ہمارے کندھے کیوں استعمال کرتے ہیں، آرمی چیف کا عہدہ آئینی عہدہ ہے، اس عہدے کو پر کرنا ہے تو قاعدے اورضابطے کے تحت کیا جانا چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ نہیں دینا چاہیے، سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دے کر ایسا لگتا ہے کہ ہمارا کندھا استعمال کیا جارہا ہے، ہم کبھی بھی مشکل نہیں رہے، ہم ہمیشہ آئین اور قانون کی پابندی کرنے والے رہے ہیں۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے اعتراض کیا کہ عدالت میں جو سمری پیش کی گئی ہے اس میں تنخواہ اورمراعات کا ذکر نہیں۔ اس معاملے کو دیکھنا ہوگا۔

تین رکنی بینچ کے سربراہ نےاٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوے کہا آپ نے سمری میں 3 سال مدت ملازمت لکھ دی ہے، اگر بہت اچھا بندہ مل جائے تو کیا اس کی مدت ملازمت میں ایسے ہی لکھیں گے۔ جسٹس منصور نے اعتراض اٹھایا کہ 3 سال کی مدت کا ذکر تو قانون میں کہیں نہیں ہے۔

انہوں نے کہا آج تو جنرل باجوہ پہلے ہی آرمی چیف ہیں، جو عہدہ خالی ہی نہیں اس پر تعیناتی کیسے ہو سکتی ہے۔


متعلقہ خبریں