خلا میں پہلا جرم، کرہ ارض سے باہر سیاحت اور آسمان کی وسعتوں میں جنگ


گزشتہ ہفتے ناسا کے خلاباز مکلین پر الزام عائد ہوا ہے کہ انہوں نے انٹرنیشنل سپیس اسٹیشن سے اجازت لیے بغیر اپنی بیوی کے بینک اکاؤنٹ چیک کیے ہیں۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں شائع رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ الزام ان کی بیوی سمر وارڈن نے لگایا ہے جو سابقہ ایئر فورس انٹیلی جنس آفیسر ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ وہ یہ جان کر حیران رہ گئیں کہ ان کے شوہر نے ان کے تمام اخراجات پر نظر رکھی ہوئی ہے۔

اخبار کے مطابق میکلین نے خلا سے اپنی بیوی کے اکاؤنٹ میں لاگ ان ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک روٹین کا معاملہ تھا لیکن چونکہ دونوں کے درمیان علیحدگی اور بچوں کے لیے عدالتی مقدمہ چل رہا ہے اس لیے یہ الزام عائد کیا گیا ہے۔

اگرچہ ابھی معاملہ زیرتفتیش ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خلا میں جرم کرنے والوں پر کس ملک کا قانون لاگو ہو گا۔ یوں لگتا ہے کہ جدید دور کے انسان کا یہ پہلا سیب ہے جو اس بار مرد نے کھایا ہے۔

خلا میں کس ملک کا قانون لاگو ہو گا؟

اس وقت جبکہ انسان خلا میں بستیاں بسانے کی تیاری کر رہا ہے، بہت سے نئے سوالات جنم لے رہے ہیں جن میں سے ایک سوال یہ بھی ہے کہ خلا میں ہونے والے جرائم پر کونسا قانون لاگو ہو گا۔

اس وقت انٹرنیشنل سپیس اسٹیشن (آئی ایس ایس) ایک بین الاقوامی معاہدے کے تحت کام کر رہا ہے اور اس پر روس، جاپان، یورپ، کینیڈا اور امریکہ نے دستخط کیے ہوئے ہیں۔

اس معاہدے کے مطابق جب آئی ایس ایس پر کسی جرم کا ارتکاب کیا جاتا ہے تو ملزم جس ملک کا شہری ہو گا اسی کے قوانین کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔

چونکہ مکلین امریکی شہری ہے اس لیے اگر اس پر جرم ثابت ہوتا ہے تو سزا کا اطلاق بھی امریکی قوانین کے تحت ہو گا۔

خلا میں سفر و سیاحت کرنے والوں کے ممکنہ جرائم اور سزائیں

اس وقت بہت سی کمپنیاں خلائی سیاحت کا آغاز کرنے کے لیے تیار ہیں۔ فرض کریں مستقبل قریب میں ایک شخص کئی ماہ سے خلائی ہوٹل میں رہائش پذیر ہے اور وہ کسی دوسرے ملک سے تعلق رکھنے والے مہمان کی اشیا چرا لیتا ہے تو اس پر کونسا قانون لاگو ہو گا؟

جوں جوں انسان کرہ ارض کی قید سے آزادی حاصل کر کے خلا کی وسعتوں میں جانے کی تیاری کر رہا ہے، یہ اور اس جیسے دیگر پیچیدہ سوالات سامنے آ رہے ہیں۔

خلا سے منسلک چار بڑے معاہدے

اس وقت خلا سے متعلق چار بڑے معاہدے موجود ہیں جن میں آؤٹر سپیس ٹریٹی ، لائیبلٹی کنونشن، رجسٹریشن کنونشن اور ریٹرن اینڈ ریسکیو اگریمنٹ شامل ہیں۔

آؤٹر سپیس ٹریٹی : یہ پچاس سالہ پرانا معاہدہ ہے جس کا مقصد ایسے طریقوں پر عمل کرنا ہے جن کے ذریعے پرامن طریقے سے خلا میں کھوج لگائی جائے۔ اس وقت 109 ممالک اس کا حصہ بن چکے ہیں جبکہ مزید بھی اس میں شامل ہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے تحت قائم کیے گئے معاہدے میں بہت سے قواعد و ضوابط طے کیے گئے ہیں۔

اس معاہدے کے تحت خلا یا سیاروں پر قابض ہونے کی کوششوں سے منع کیا گیا ہے تاہم معاہدے کی اس شق کے حوالے سے مختلف ممالک کی تشریح میں اختلاف موجود ہے۔

اسی طرح خلا میں ملبہ پھیلانے سے بھی روکا گیا ہے۔

رجسٹریشن کنونشن: اس معاہدے کے تحت خلا میں کچھ بھی بھیجنے سے پہلے اقوام متحدہ کی منظوری لازمی ہو گی۔

لائبلیٹی کنونشن: اس معاہدے کے تحت کسی قوم کے خلا میں گھومتے اثاثے سے کسی اور ملک کے اثاثوں کو نقصان پہنچے گا تو پہلے ملک کو اس کا ہرجانہ ادا کرنا پڑے گا۔

ریٹرن اینڈ ریسکیو اگریمنٹ : اس قانون کے تحت اگر کسی خلانورد کو مدد کی ضرورت ہے تو قریب ترین افراد پر اس کی مدد کرنا فرض ہو گا۔

خلا کا فوجی استعمال۔ ایک بڑا چیلنج

مختلف ممالک کے علاوہ عالمی کمپنیوں کی جانب سے کرہ ارض سے باہر بڑھتی ہوئی دلچسپی کے بعد اب ماہرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر خلا کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی روش شروع ہو گئی تو کیا ہو گا۔

جمعرات کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فوجی اسپیس کمانڈ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ چین اور روس بھی خلا کے لیے افواج تیار کر رہے ہیں جس کے باعث مستقبل قریب میں خلا میں جنگوں کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس حوالے سے کسی قسم کا واضح اور تفصیلی قانون موجود نہیں ہے۔

اگرچہ آؤٹر سپیس ٹریٹی کی شق 4 میں لکھا گیا ہے کہ چاند اور دیگر سیاروں کو صرف پرامن مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا لیکن اس میں فوجی مقاصد کے لیے استعمال کو واضح الفاظ میں منع نہیں کیا گیا۔

خلا میں بکھرا ملبہ

خلا میں چھوڑی بڑی بہت سی اشیا بکھری ہوئی ہیں جو زمین کے اردگرد گردش کرنے کے باعث انتہائی تیز رفتاری سے گردش کر رہی ہیں۔ ان میں خلائی سیاروں کے ملبے سے لے کر خلابازوں کے ہاتھ سے چھوٹ جانے والے چھوٹے موٹے اوزار شامل ہیں۔

یاد رہے کہ 2007 میں چین نے اپنے ہی ایک خلائی سیارے کو میزائیل کے ذریعے تباہ کیا تھا جو ہزاروں ٹکڑوں میں بٹ گیا تھا اور یہ اب زمین کے مدار میں گردش کر رہے ہیں۔

یہ تیز رفتار اشیا نہ صرف خلائی سیاروں کے لیے بلکہ ان سے باہر نکلنے والے خلابازوں کے لیے بھی جان لیوا ہو سکتے ہیں۔ مستقبل قریب کی سیاحت کے لیے یہ بڑا چیلنج ہوں گے۔

سستی ٹیکنالوجی اور عالمی کمپنیاں

اس وقت سستی ٹیکنالوجی کے باعث بہت سی کمپنیاں خلا میں قدم رکھنے کو تیار ہیں، آؤٹر سپیس ٹریٹی اقوام اور ممالک کو تو خلا پر اجارہ داری سے روکتا ہے لیکن یہ افراد اور کارپوریشنز کے متعلق خاموش ہے۔

اس وقت بہت سی کمپنیاں خلائی ہوٹلنگ اور سیاحت کے لیے ماڈل تیار کر رہی ہیں۔ بہت جلد چاند سے معدنیات نکالنے کے لیے مسابقت شروع ہو سکتی ہے۔

ان تمام مسائل اور چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے نہ صرف نئے قوانین کی تشکیل وقت کی ضرورت ہے بلکہ خلا پر کسی بھی ملک، کمپنی یا فرد کی اجارہ داری اور اسے فوجی مقاصد کے استعمال سے روکنے کے لیے مفصل جدوجہد لازم ہو چکا ہے۔


متعلقہ خبریں