طلبا یونینز کی بحالی: حکومت، اپوزیشن رہنماؤں کی حمایت


اسلام آباد: حزب اختلاف اور حکومت سے تعلق رکھنے والے بیشتر معروف سیاست دانوں نے طلبا یونینز پر پابندی ہٹانے کی حمایت کردی ہے۔

وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ وہ یونینز پر پابندی کو جمہوریت کے منافی سمجھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یونینز پر پابندی کا مطلب مستقبل کی سیاست محدود کرنا ہے۔

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ اسٹوڈنٹ یونین پر پابندی لگائی گئی لیکن طلبہ نسلی اور فرقہ وارانہ گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔

خیبرپختونخواہ کے وزیر اطلاعت شوکت یوسفزئی کا کہنا ہے کہ وہ یونین کی بحالی کی حمایت کرتے ہیں، تاہم ماضی میں طلبہ یونین سے کئی غلطیاں بھی ہوئیں ہیں جن کو درست کیا جاسکتا ہے۔

ادھر بلاول بھٹو زرداری نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ پیپلزپارٹی نے ہمیشہ طلبا یونینز کی حمایت کی تاہم بے نظیر بھٹو کا اقدام واپس لیا گیا جس کا مقصد سوسائٹی کو سیاست سے دور کرنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ یونینز کی بحالی کیلئے طلبا آج یکجہتی مارچ کررہے ہیں، جس کا مقصد تعلیم کا حق اور جامعات کو نجکاری سے روکنا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ انسداد جنسی ہراسگی قانون کا نفاذ، یونیورسٹیوں کو تخریب کاری سے بچانا ہے۔

طلبا یونینز پر پابندی فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میں عائد کی گئی، ملک میں جمہوریت کی بحالی کے بعد 1988 میں محترمہ بےنظیر بھٹو نے طلبہ یونین سے پابندی ہٹانے کا اعلان کیا لیکن تین سال کے اندر یونین سازی کو اس بنیاد پر عدالت میں چیلنج کر دیا گیا کہ یہ تشدد کو فروغ دیتی ہیں۔

2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے پہلے خطاب میں طلبہ یونین کی بحالی کا اعلان کیا لیکن پیپلزپارٹی پانچ سال اقتدار میں رہنے کے باوجود اس پر عمل درآمد نہ کرا سکی۔

اگست 2017 میں سینیٹ نے اتفاق رائے سے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ملک کی یونیورسٹیوں میں طلبہ تنظیموں کو پوری طرح سے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔


متعلقہ خبریں